اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۵١

یہاں بھی وہی بات فرمائی گئی ہے کہ  جو اوپر کے فقرے میں ہے۔ سر کی آنکھیں کھلی ہونے سے کچھ فائدہ نہیں ، ان سے تو جانور بھی آخر دیکھتا ہی ہے۔ اصل چیز دل کی آنکھوں کا کھلا ہونا ہے ۔ یہ چیز اگر کسی شخص کو حاصل نہ ہوتو وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا۔
ان دونوں آیتوں میں خطاب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر ملامت ان لوگوں کو کی جا رہی ہے جن کی اصلاح کے آپ درپے تھے۔ اور اس ملامت کی غرض بھی محض ملامت کرنا ہی نہیں ہے بلکہ طنز کا تیر و نشتر اس لیے چبھویا جا رہا ہے کہ ان کی سوئی ہوئی انسانیت اس کی چبھن سے کچھ بیدار ہو اور ان کی  چشم و گوش سے ان کے دل تک جانے والا راستہ کھلے، تا کہ معقول بات اور درد مندانہ نصیحت وہاں تک پہنچ سکے۔ یہ انداز بیان کچھ اس طرح کا ہے جیسے کوئی نیک آدمی بگڑے ہوئے لوگوں کے درمیان بلند ترین اخلاقی سیرت کے ساتھ رہتا ہو اور نہایت اخلاص و دردمندی کے ساتھ اُن کو اُن کی اُس گری ہوئی حالت کا احساس دلارہا ہوں جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں۔ اور بڑی معقولیت و سنجیدگی  کے ساتھ انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ان کے طریقِ زندگی میں کیا خرابی ہے اور صحیح طریقِ زندگی کیا ہے۔ مگر کوئی نہ تو اس کی پاکیزہ زندگی سے سبق لیتا ہو  نہ اس کی اِن خیر خواہانہ نصیحتوں کی طرف توجہ کرتا ہو۔ اس حالت میں عین اُس وقت جبکہ وہ ان لوگوں کو سمجھانے میں مشغول ہو اور وہ اس کی باتوں کو سُنی اَن سُنی کیے جا رہے ہوں ، اس کا کوئی دوست آکر اس سے کہے کہ میاں یہ تم کن بہروں کو سنا رہے ہو اور کن اندھوں کو راستہ دکھانا چاہتے ہو ، ان کے تو دل  کے کان بند ہیں اور ان کی ھِیے کی آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں ۔ یہ بات کہنے سے اُس دوست کا منشا یہ نہیں ہو گا کہ وہ مرد صالح اپنی سعی اصلاح سے باز آجائے۔ بلکہ دراصل اس کی غرض یہ ہو گی کہ شاید اس طنز اور ملامت ہی سے ان نیند کے ماتوں کو کچھ ہوش آجائے۔