اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۵٦

اسرائیل کے معنی ہیں عبد اللہ یا بندہ ٴ خدا ۔ یہ حضرت یعقوب ؑ کا لقب تھا، جو اُن کو اللہ تعالی ٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ وہ حضرت اسحٰا ق ؑ کے بیٹے اور حضرت ابراہیم ؑ کے پوتے تھے۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ پچھلے  چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل  ایک تقریر اِس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی  ہے  جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکینِ عرب کی طرف بھی کلام کا رُخ پھر گیا مطلب یہ ہے کہ رسول کی دعوت کا کسی گروہ انسانی تک پہنچنا گویا اُس گروہ پر اللہ کی حجت کا پورا ہو جانا ہے۔ اس کے بعد صرف فیصلہ ہی باقی رہ جاتا ہے ، کسی مزید اتمام حجت کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ اور یہ فیصلہ غایت درجہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ رسول کی بات مان لیں اور  اپنا رویہ درست کر لیں وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ اور جو اس کی بات نہ مانیں و ہ عذاب کے مستحق ہو جاتے  ہیں ، خواہ وہ عذاب ِ دنیا اور آخرت دونوں میں دیا جائے یا صرف آخرت میں۔