اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر٦١

یعنی تمہیں کچھ احساس بھِ ہے کہ یہ کتنا سخت باغیانہ جرم ہے جو تم کر رہے ہو۔ رزق اللہ کا ہے اور تم خود اللہ کے ہو، پھر یہ حق آخر تمہیں کہاں سے حاصل ہو گیا کہ اللہ کی املاک میں اپنے تصرف ، استعمال اور انتفاع کے لیے خود حد بندیاں مقرر کرو؟ کوئی نوکر اگر یہ دعویٰ کرے کہ آقا کے مال میں اپنے  تصرف اور اختیارات کی حدیں اسے خود مقرر کر لینے کا حق ہے اور اس معاملہ میں آقا کے کچھ بولنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے تو اس کے متعلق  تمہاری کیا رائے ہے؟ تمہارا اپنا ملازم اگر تمہارے گھر میں اور تمہارے گھر کی سب چیزوں میں اپنے عمل اور استعمال کے لیے اس آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کر ے تو تم اس کے ساتھ کیا معاملہ کرو گے؟ ۔۔۔۔۔۔ اُس نوکر کا معاملہ تو دوسرا ہی ہے جو سرے سے یہی نہیں مانتا کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور کوئی اس کا آقا بھی ہے اور یہ  کسی اور کا مال ہے جو اسکے تصرف میں ہے۔ اُس بد معاش غاصب کی پوزیشن یہاں زیرِ بحث نہیں ہے ۔ یہاں سوال اُس نوکر کی پوزیشن کا ہے جو خود مان رہا ہے کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ مال اُسی کا ہے جس کا وہ نوکر ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس مال میں اپنے تصرف  کے حدود مقرر کر لینے کا حق مجھے آپ ہی حاصل ہے اور آقا سے کچھ ہوچھنے کی  ضرورت نہیں ہے۔