اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر٦۵

یہ ایک تشریح طلب مضمون ہے جسے بہت مختصر لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ فلسفیانہ تجسّس ، جس کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ اس کائنات میں بظاہر جو کچھ ہم دیکھتے  اور محسُو س کرتے ہیں اس کے پیچھے کوئِ حقیقت پوشیدہ ہے یا نہیں اور ہے تو وہ کیا ہے، دنیا میں اُن سب لوگوں کے لیے جو وحی و الہام سے براہِ راست حقیقت کا علم نہیں پاتے ، مذہب کے متعلق رائے قائم کرنے کا واحد  ذریعہ ہے۔ کوئی شخص بھی خواہ وہ دہریت اختیار کرے یا شرک یا خدا پرستی، بہرحال ایک نہ ایک طرح کا فلسفیانہ تجسّس کیے بغیر مذہب کے بارے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔  اور پیغمبروں نے جو مذہب پیش کیا ہے اس کی جانچ بھی اگر ہو سکتی ہے تو اسی طرح  ہو سکتی ہے کہ آدمی، اپنی بساط بھر، فلسفیانہ غور و فکر کر کے اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ پیغمبر ہمیں مظاہرِ کائنات کے پیچھے جس حقیقت  کے مستور ہونے کا پتہ دے رہے ہیں وہ دل کو لگتی ہے یا نہیں۔ اس تجسّس کے صحیح یا غلط ہونے کا تمام تر انحصار طریقِ تجسّس پر ہے۔ اس کے غلط ہونے سے غلط رائے اور صحیح ہونے  سے صحیح رائے قائم ہوتی ہے۔ اب ذرا جائزہ  لے کر دیکھیے کہ دنیا میں مختلف گروہوں نے اس تجسّس کے لیے کون کون سے طریقے اختیا ر کیے ہیں:
مشرکین نے خالص وہم پر اپنی تلاش کی بنیاد رکھی ہے۔
اِشراقیوں اور جوگیوں نے اگرچہ مراقبہ کا ڈھونگ رچایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ہم ظاہر کے پیچھے جھانک کر باطن کا مشاہدہ کر لیتے ہیں، لیکن فی الواقع اُنہوں نے اپنی اس سراغ رسانی کی بنا گمان پر رکھی ہے۔ وہ مراقبہ دراصل اپنے گمان کا کرتے ہیں، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نظر آتا ہے اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ گمان سے جو خیال اُنہوں نے قائم کر لیا ہے اسی پر تخیل کو  جما دینے اور پھر اس پر ذہن کا دباؤ ڈالنے سے ان کو وہی خیال چلتا پھرتا نظر آنے لگتا ہے۔
اصطلاحی فلسفیوں نے قیاس کو بنائے تحقیق بنایا ہے جو اصل میں اصل میں تو گمان ہی ہے لیکن اس گمان کے لنگڑے پن کو محسوس کر کے انہوں نے منطقی استدلال اور مصنوعی تعقل کی بیساکھیوں پر اسے چلانے کی کوشش کی ہے اور اس کا نام”قیاس“ رکھ دیا ہے۔
سائنس دانوں نے اگرچہ سائنس کے دائرے میں تحقیقات کے لیے علمی طریقہ اختیار کیا ہے ، مگر مابعد الطبیعیات کے حدود میں قدم رکھتے ہی وہ بھی علمی طریقے کو چھوڑ کر قیا س و گمان اور اندازے اور تخمینے کے پیچھے چل پڑے۔
پھر ان سب گروہوں کے اوہام اور گمانوں کو کسی نہ کسی طرح سے تعصب کی بیماری بھی لگ گئی جس نے انہیں دوسرے کی بات نہ سننے اور اپنی ہی  محبوب راہ پر مُڑنے ، اور مُڑ جانے بعد مُڑے رہنے پر مجبور کر دیا ۔
قرآن اِس طریقِ تجسّس کو بنیادی طور پر غلط قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم لوگوں کی گمراہی کا اصل سبب یہی ہے کہ تم تلاشِ حق کی بنا گمان اور قیاس آرائی پر رکھتے ہو اور پھر تعصب کی وجہ سے کسی کو معقول بات سُننے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ اسی دُہری غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ تمہارے لیے خود حقیقت کو پالینا تو ناممکن تھا ہی، انبیاء کے پیش کردہ دین کو جانچ کر صحیح رائے پر پہنچنا بھی غیر ممکن ہو گیا۔
اس کے مقابلہ میں قرآن فلسفیانہ تحقیق کے لیے صحیح علمی و عقلی طریقہ یہ بتاتا ہے کہ پہلے تم حقیقت کے متعلق اُن لوگوں کا بیان کھلے کانوں سے، بلاتعصب سُنو  جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قیاس و گمان یا مراقبہ و استدراج کی بنا پر نہیں بلکہ”علم“ کی بنا تمہیں بتا رہے ہیں کہ حقیقت یہ ہے۔ پھر کائنات میں جو آثار(باصطلاح قرآن ”نشانات“) تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آتے ہیں ان پر غور کرو، ان کی شہادتوں کو مرتب کر کے دیکھو، اور تلاش کرتے چلے جاؤ کہ اس ظاہر کے پیچھے جس  حقیقت کی نشاندہی یہ لوگ کر رہے ہیں اُس کی طرف اشارہ کرنے والی علامات  تم کو اسی ظاہر میں ملتی ہیں یا نہیں۔ اگر ایسی علامات نظر آئیں اوران کے اشارے بھی واضح ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں تم خواہ مخواہ اُن لوگوں کو جھٹلاؤ  جن کا بیان آثار کی شہادتوں کے مطابق پایا جا رہا ہے۔ ۔۔۔۔۔ یہی طریقہ فلسفۂ اسلام کی بنیا د ہے جسے چھوڑ کر افسوس ہے کہ مسلمان فلاسفہ بھی  افلاطون اور ارسطو کے نقش ِ قدم پر چل پڑے۔
قرآن میں جگہ جگہ نہ صرف اِس طریق کی تلقین کی گئی ہے ، بلکہ خود آثارِ کائنات کو پیش کر کر کے اس سے نتیجہ نکالنے اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی گویا باقاعدہ تربیت دی گئی ہے تاکہ سوچنے اور تلاش کرنے کا یہ ڈھنگ ذہنوں میں راسخ ہو جائے۔ چنانچہ اس آیت میں بھی مثال کے طور پر صرف دو آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، یعنی رات اور دن۔ یہ انقلابِ  لیل و نہار دراصل سورج اور زمین کی نسبتوں میں انتہائی باضابطہ تغیر کی وجہ سے رونما ہوتا ہے۔ یہ ایک عالمگیر ناظم اور ساری کائنات پر غالب اقتدار رکھنے والے حاکم کے وجود کی صریح علامت ہے۔ اِس میں صریح حکمت اور مقصدیت  بھی نظر آتی ہے  کیونکہ تمام موجودات زمین کی بے شمار مصلحتیں اسی گردشِ لیل و نہار کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس میں صریح ربوبیت  اور  رحمت اور پروردگار ی کی علامتیں بھی پائی جاتی ہیں کیونکہ اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ جس نے زمین پر یہ موجودات پیدا کی ہیں وہ خود ہی ان کے وجود  کی ضروریات بھی فراہم کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالمگیر ناظم ایک ہے، اور یہ بھی کہ وہ کھلنڈرا نہیں بلکہ حکیم ہے اور با مقصد کام کرتا ہے، اور یہ بھی کہ وہی محسن و مربّی ہونے کے حیثیت سے عبادت کا مستحق ہے، اور یہ بھی کہ گردش ِ لیل و نہار کے  تحت  جو کوئی بھی ہے  وہ رب نہیں مربوب ہے، آقا نہیں غلام ہے ۔ اِن آثاری شہادتوں کے مقابلہ میں  مشرکین نے گمان و قیاس سے جو مذہب ایجاد کیے ہیں وہ آخر کس طرح صحیح ہو سکتے ہیں۔