اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر٦۸

یہاں ان کے اس قول کی تردید میں تین باتیں کہی گئی ہیں: ایک یہ  کہ اللہ بے عیب ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ بے نیاز ہے ۔ تیسرے یہ کہ آسمان و زمین کی ساری موجودات اُس کی ملک ہیں ۔ یہ مختصر جوابات تھوڑی سی تشریح سے بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں:
ظاہر بات ہے کہ بیٹا یا تو صلبی ہو سکتا ہے یا متبنّٰی۔ اگر یہ لوگ کسی کو خدا کا بیٹا صُلبی معنوں میں قرار دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو اُس حیوان پر قیاس کرتے ہیں جو شخصی حیثیت سے فانی ہوتا ہے اور جس کے وجود کا تسلسل بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتا کہ اس کی جوئی جنس ہو  اور اس جنس سے کوئی اس کا جوڑا ہو اور ان دونوں کے صنفی تعلق سے اس کی اولاد ہو جس کے ذریعہ سے اس کا نوعی وجود اور اس کا کام باقی رہے۔ اور اگر یہ لوگ  اس معنی میں خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں کہ اس نے  کسی  کو متبنّٰی بنایا ہے تو یہ دو حال سے  خالی نہیں۔ یا تو انہوں نے خدا کو اس انسان پر قیاس کیا ہے  جو لاولد ہونے کی وجہ سے اپنی جنس کے کسی فرد کو اس لیے بیٹا بناتا ہے کہ وہ اس کا وارث ہو اور اُس نقصان کی، جو اسے بے اولاد  رہ جانے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے، برائے نام ہی سہی، کچھ تو تلافی کر دے۔ یا پھر ان کا گمان یہ ہے کہ خدا بھی انسان کی طرح جذباتی میلانات رکھتا ہے اور اپنے بے شمار بندوں میں سے کسی ایک کےساتھ اس کو کچھ ایسی محبت ہو گئی ہے کہ اس نے اسے بیٹا  بنا لیا ہے۔
ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ، بہر حال اس عقیدے کے بنیادی تصورات میں خدا پرست بہت سے عیوب ، بہت سی کمزوریوں ، بہت سے نقائص اور بہت سی احتیاجوں کی تہمت لگی ہوئی ہے۔ اسی بنا پر پہلے فقرے  میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب ، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو تم اس کی طرف منسوب کررہے ہو۔ دوسرے فقرے میں ارشاد ہوا کہ وہ اُن حاجتوں سے بھِ بے نیاز ہے جن کی وجہ سے فانی انسانوں کو اولاد کی یا بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور تیسرے فقرے میں صاف کہہ دیا  گیا کہ زمین و آسمان میں ب اللہ کے بندے اور اس کی مملوک ہیں ، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اللہ کا ایسا کوئی مخصوص ذاتی  تعلق نہیں ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسے وہ اپنا بیٹا یا اکلوتا یا ولی عہد قرار دے لے۔ صفا ت کی بنا پر بے شک اللہ بعض بندوں کو  بعض کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتا ہے، مگر اس محبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی بندے کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی  میں شرکت کا مقام دے دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ  اس محبت کا تقاضا بس وہ ہے جو اس سے پہلے کی ایک آیت میں بیان کر دیا گیا ہے کہ ”جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ، دنیا اور آخرت دونوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔