اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۷۴

یعنی حضرت موسیٰ ؑ   کا پیغام سُن کر وہی کچھ کہا جو کفارِ مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سُن کر کہاتھا کہ”یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے“۔(ملاحظہ ہو اسی سورۂ یونس کی دوسری آیت
یہاں سلسلہ ٔ  کلام کو نگا ہ میں رکھنے سے یہ بات صریح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام بھی دراصل اُسی خدمت پر مامور ہوئے تھے  جس پر حضرت نوح اور ان کے بعد کے تمام انبیاء ، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ، مامور ہوتے رہے ہیں۔ اس سورہ میں ابتدا سے ایک ہی مضمون چلا آرہا ہے اور وہ یہ کہ صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رب اور الٰہ مانو اور یہ تسلیم کرو کہ تم کو اس زندگی کے بعد دوسری زندگی میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا  اور اپنے عمل  کا حساب دینا ہے ۔ پھر جو لوگ پیغمبر کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے ان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ نہ صرف تمہاری فلاح کا بلکہ ہمیشہ سے تمام انسانوں کی فلاح کا  انحصار اسی ایک بات پر رہا ہے کہ اس عقیدہ ٔ توحید و آخرت کی دعوت کو ، جسے ہر زمانے میں خدا کے پیغبروں نے پیش کیا ہے، قبو ل کیا جائے اور اپنا پورا نظامِ زندگی اسی بنیاد پر قائم کر لیا جائے۔ فلاح صرف انہوں نے پائی جنہوں نے یہ کام کیا، اور جس قوم نے بھی اس سے انکار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہی۔ یہی اس سورہ کا مرکزی مضمون ہے، اوراس سیاق میں جب تاریخی نظائر کے طور پر دوسرے انبیاء کا ذکر آیا ہے تو لازمًا اس کے یہی معنی ہیں کہ جو دعوت اس سورہ میں دی گئی ہے وہی ان تمام انبیاء کی دعوت تھی، اور اسی کو لے کر حضرت موسیٰ و ہارون بھی فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس گئے تھے۔ اگر واقعہ وہ ہوتا جو بعض لوگوں نے گمان کیا ہے  کہ حضرت موسیٰ و ہارون کا مشن ایک خاص قوم کو دوسری قوم کی غلامی سے رہا کرانا تھا، تو اِس سیاق و سباق میں اس واقعہ کو تاریخی نظیر کے طور پر پیش  کرنا بالکل  بے جوڑ ہوتا ۔ اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حضرات کے مشن کا ایک جزء یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل (ایک مسلمان قوم) کو ایک کافر قوم کے تسلط سے (اگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے) نجات دلائیں۔ لیکن یہ ایک ضمنی مقصد تھا  نہ کہ اصل مقصد بعثت۔ اصل مقصد تو وہی تھا جو قرآن کی رو سے تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد رہا ہے اور سورۂ نازعات میں جس کو صاف طور پر بیان بھی کر دیا گیا ہے کہ   اِذَھَبْ اِلیٰ فِرْعَوْ نَ اِنَّہُ طَغٰی o فَقُلْ ھَلْ لَّکَ اِلیٰٓ اَنْ تَزَکّٰیo وَاَھْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَخْشٰی۔ (آیات ۱۷ تا ۱۹)” فرعون کےپا س جا کیونکہ  وہ حدّی بندگی سے گزر گیا ہے اور اس  سے کہہ کیا تُو اس  کے لیے تیار ہے کہ سدھر جائے، اور میں تجھے تیرے ربّ کی طرف رہنمائی کروں تو تُو اس سے ڈرے“؟ مگر چونکہ فرعون  اور اس کے اعیانِ سلطنت نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا اورآخرکار حضرت موسیٰ کو یہی کرنا پڑا کہ اپنی مسلمان قوم کو اس کے تسلّط سے نکال لے جائیں ، اس لیے اس کے مشن کا یہی جزء تاریخ میں نمایاں ہو گیا اور قرآن میں بھی اس کو ویسا ہی نمایا ں کر کے پیش کیا گیا  جیسا کہ  وہ تاریخ میں فی الواقع ہے۔ جو شخص قرآن کی تفصیلات کو  اس کے کلیات سے جدا کر کے  دیکھنے کی غلطی نہ کرتا ہو  ، بلکہ انہیں کلیات کے تابع کر کے ہی دیکھتا اور سمجھتا ہو، وہ  کبھی اس  غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ ایک قوم کی رہائی کسی نبی کی بعثت کا اصل مقصد، اور دین حق کی دعوت محض اُس کا ایک ضمنی مقصد ہو سکتی ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو طٰہٰ ، آیات ۴۴ تا ۸۲۔ ، الزخرف، ۴۶ تا ۵۶۔ ، المزمل ۱۵ – ۱۶