اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۷۹

متن میں   فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسیٰ  کے الفاظ ہیں۔ اس سے بعض لوگوں کو  ہوا کہ شاید بی اسرائیل سب  کے سب کافر تھے اور ابتداءً ان میں سے صرف چند آدمی ایمان لائے۔ لیکن ایمان کے ساتھ جب لام کا صلہ آتا ہے  تو وہ بالعموم اطاعت و انقیاد کے معنی دیتا ہے ، یعنی کسی کی بات مانن اور اس کے کہے پر چلنا۔ پس دراصل ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ   چند نوجوانوں کو چھوڑ کر بنی اسرائیل کی پوری قوم   میں سے کوئی بھی اس بات پر آمادہ نہ ہوا کہ  حضرت موسیٰ کو اپنا رہبر و پیشوا مان کر ان کی پیروی اختیار کر لیتا اور اس دعوتِ اسلامی کے کام میں ان کا ساتھ دیتا۔ پھر بعد کے فقرے نے اس بات کو واضح کر دیا کہ ان کے اس طرزِ عمل کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حضرت موسیٰ کے صادق اور ان کی دعوت کے حق ہونے میں کوئی شک تھا ، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اور خصوصًا ان کے اکابر و اشراف، حضرت موسیٰ کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو  فرعون کی سخت گیری کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اگرچہ یہ لوگ نسل اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے ابراہیم، اسحاق ، یعقوب اور یوسف علیہم السلام کے اُمتی تھے  اور اس بنا پر ظاہر ہے کہ سب مسلمان تھے، لیکن ایک مدّتِ دراز کے اخلاقی انحطاط نے  اور اُس پست ہمتی نے جو زیردستی سے پیدا ہوئی تھی ، ان میں اتنا بل بوتا باقی نہ چھوڑا تھا کہ کفر و ضلالت کی فرمانروائی کے مقابلہ میں ایمان و ہدایت کا عَلَم لے کر خود اُٹھتے، یا جو اُٹھا تھا اُس کاساتھ دیتے۔
حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کی اس کشمکش میں عام اسرائیلیوں کا طرزِ عمل کیا تھا، اس کا اندازہ بائیبل کی اس عبارت سے ہو سکتا ہے:
” جب وہ فرعون کے پاس سے نکلے آرہے تھے تو اُن کو موسیٰ اور ہارون ملاقات کے لیے راستہ پر کھڑے ملے۔ تب انہوں نے ان سے کہا کہ خداوند ہی دیکھے اور تمہارا انصاف کرے، تم نے تو ہم کو فرعون اور اس کے خادموں کی نگاہ میں ایسا گھِنَونا کیا ہے کہ ہمارے قتل کے لیے اُن کے ہاتھ میں تلوار دے دی ہے“۔ (خروج  ۶  : ۲۰ – ۲۱)
                تَلمُود میں لکھا ہے کہ  بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے کہتے تھے:
”ہماری مثال تو ایسی ہے جیسے ایک بھیڑیے نے بکری کو پکڑا اور چرواہے نے آکر اس کو بچانے کی کوشش کی اور دونوں کی کشمکش میں بکری کے ٹکڑے ہو گئے۔ بس اسی طرح تمہاری اور فرعون کی کھینچ تان میں  ہمارا کام تمام ہو کر رہے گا“۔
انہی باتوں کی طرف سورۂ اعراف میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ   اُوْ ذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْ تِیَنَا وَمِنْم بَعْدِ مَا جِئْتَنَا (آیت ۱۲۹