اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۸۴

اس آیت کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ اس کے الفاظ پر اور اس ماحول پر جس میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے گئے  تھے، غور کرنے سے میں یہ سمجھا ہوں کہ غالبًا مصر میں حکومت کے تشدد سے اور خود بنی اسرائیل کے اپنے ضعف ایمانی کی  وجہ سے اسرائیلی اور مصری مسلمانوں کے ہاں نماز با جماعت کا نظام ختم ہو چکا تھا،  اور یہ ان کے شیرازے کے بکھرنے اور ان کی دینی روح پر موت طاری ہوجانے کا ایک بہت بڑا سبب تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو حکم دیا گیا کہ اس نظام کو ازسر نو قائم کریں اور مصر میں چند مکان اس غرض کے لیے تعمیر یا تجویز کر لیں  کہ وہاں اجتماعی نماز ادا کی جایا کرے۔ کیونکہ ایک بگڑی ہوئی اور بکھری ہوئی مسلمان قوم میں دینی روح کو پھر سے زندہ کرنے اور اس کی منتشر طاقت کو از سر نو مجتمع کر نے کے لیے اسلامی طرز پر جو کوشش بھی کی  جائے گی اس کا پہلا قدم  لازمًا یہی ہو گا کہ اس میں نماز با جماعت کا نظام قائم کیا جائے۔ ان مکانوں  کو قبلہ ٹھیرانے کا مفہوم میرے نزدیک یہ ہے کہ ان مکانوں کو ساری قوم کے لیے مرکز اور مرجع  ٹھیرایا جائے ، اور اس کے بعد ہی ”نماز قائم کرو“کہنے کا مطلب یہ ہے کہ متفرق طور پر اپنی اپنی جگہ نماز پڑھ لینے کے بجائے لوگ ان مقرر مقامات پر جمع ہو کر  نماز پڑھا کریں، کیونکہ قرآن کی اصطلاح میں” اقامتِ صلوٰۃ“ جس چیز کا نام  ہے  اس کے مفہوم  میں لازمًا  نماز با جماعت بھی شامل ہے۔