اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۹۹

 قرآن میں اس قصّہ کی طرف تین جگہ صرف اشارات کیے گئے ہیں، کوئی تفصیل نہیں دی گئی(ملاحظہ ہو سورہ ٔ انبیاء، آیات ۸۷ – ۸۸۔ ، الصافّات، ۱۳۹ – ۱۴۹۔ ، القلم، ۴۸ – ۵۰) اس لیے یقین   کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ قوم کن خاص وجوہ کی بنا پر خدا کے اِس قانون سے مستثنیٰ کی گئی کہ”عذاب کا فیصلہ ہو جانے کے بعد کسی کا ایمان اس کے لیے نافع نہیں ہوتا“۔ بائیبل میں ”یوناۃ“ کے نام سے جو مختصر سا صحیفہ ہے اس میں کچھ تفصیل تو ملتی ہے مگر وہ چنداں قابل اعتماد نہیں ہے ۔ کیونکہ اوّل تو نہ وہ آسمانی صحیفہ ہے، نہ خود یونس علیہ السلام کا اپنا لکھا ہوا ہے ، بلکہ ان کے چار پانچ سو برس بعد کسی نامعلوم شخص نے اسے تاریخ یونس کے طور پر لکھ کر مجموعہ کتب مقدسہ میں شامل کر دیا ہے۔ دوسرے اس میں بعض صریح مہملات بھی پائے جاتے ہیں جس ماننے قابل نہیں ہیں۔ تاہم قرآن کے اشارات اور صحیفہ ٔ یونس کی تفصیلات پر غور کرنے سے وہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے  جو مفسرین ِ قرآن نے بیان کی ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام چونکہ عذاب کی اطلاع دینے  کے بعد اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اپنا مستقر چھوڑ کر چلے گئے تھے، ا س لیے جب آثارِ عذاب دیکھ کر آشوریوں نے توبہ و استغفار کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ قرآن مجید میں خدائی دستور کے جو اصول و کلیات بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک مستقل دفعہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قومکو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر اپنی حجت پوری نہیں کر لیتا ۔ پس جب نبی نے اس قوم کی مہلت کے آخری لمحے تک نصیحت کا سلسلہ جا ری نہ رکھا، اور اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے بطورر خود ہی وہ ہجرت کر گیا، تو اللہ تعالیٰ  کے انصاف نے اس کی قوم کو  عذاب دینا گوارا نہ کیا کیونکہ اس پر اتمام حجت کی قانونی شرائط پوری نہیں ہوئی تھیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو  تفسیر سورۂ الصافات، حاشیہ نمبر ۸۵