اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر١۰١

یعنی اللہ تعالیٰ سنگ دل اور بے رحم نہیں ہے۔ اس کو اپنی مخلوقات سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ خواہ مخواہ سزادینے ہی کو اس کا جی چاہے اور اپنے بندوں  کو مار مار  کر ہی وہ خوش ہو۔ تم لوگ اپنی سرکشیوں  میں جب حد سے گزر جاتے ہو اور کسی طرح فساد پھیلانے سے باز ہی نہیں آتے تو  تب وہ بادلِ ناخواستہ تمہیں سزا دیتا ہے ۔ ورنہ اس کا حال تو یہ ہے کہ تم خواہ کتنے ہی قصور کر چکے ہو، جب بھی اپنے افعال پرنادم ہو کر ا سکی طرف پلٹو گے اس کے دامن رحمت کو اپنے لیے وسیع پاؤگے۔ کیونکہ اپنی پیدا کی ہوئی مخلوق سے وہ بے پایاں محبت رکھتا ہے۔
اس مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے د و نہایت لطیف مثالوں سے واضح فرمایا ہے۔ ایک مثال تو آپ نے یہ دی ہے  کہ اگر تم میں سے کسی شخص کا اونٹ ایک بے آب و گیا  ہ صحرا میں کھو گیا ہو اور  اس کے کھانے پینے کا سامان بھی اونٹ پر ہو اور و ہ شخص اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مایوس ہو چکا ہو یہاں تک کہ زندگی سے بے آس ہو کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا ہو، اور عین اس حالت میں یکایک وہ دیکھے کہ  اس کا اونٹ  سامنے کھڑا ہے، تو اس وقت جیسی کچھ خوشی اس کو ہو گی، اس سے بہت زیادہ خوشی اللہ کو اپنے بھٹکے ہوئے بندے کے پلٹ آنے سے ہوتی ہے۔ دوسری مثال  اس سے بھی  زیادہ مؤثر ہے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ جنگی قیدی گرفتار ہو کر آئے۔ ان میں ایک عورت بھی تھی جس کا شیر خوار بچہ چھوٹ گیا تھا اور  وہ مامتا  کی ماری ایسی بے چین تھی کہ جس بچے کو پالیتی اسے چھاتی سے چمٹا کر دودھ پلانے لگتی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حال دیکھ کر ہم لوگوں سے پوچھا کیا تم لوگ یہ توقع کر سکتے ہو  کہ یہ ماں اپنے بچے کو خود اپنے ہاتھوں آگ  میں پھینک دے گی؟ ہم نے عرض کیا  ہرگز نہیں، خود پھینکنا  تو کر درکنار ،  وہ آپ گرتا ہو تو یہ اپنی حد تک تو اسے بچا نے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی۔ فرمایا   اللہ ارحم بعبادہٖ من ھٰذِہ بولدھا۔” اللہ کا رحم اپنے بندوں پر اس سے بہت زیادہ ہے جو یہ عورت اپنے بچے کے لیے رکھتی ہے“۔
 اور ویسے بھی غور کرنے سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی تو ہے جس نے بچوں کی پرورش کے لیے ماں باپ کے دل میں محبت پیدا کی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ  اگر خدا اس محبت کو پیدا نہ کرتا تو ماں اور باپ سے بڑھ کر بچوں کا کوئی دشمن نہ ہوتا۔ کیونکہ سب سے بڑھ کر وہ انہی کے لیے تکلیف  دہ ہوتے ہیں۔ اب ہر شخص خود سمجھ سکتا  ہے کہ جو خدا محبتِ مادری اور شفقتِ پدری  کا خالق ہے خود اُ س کے اندر اپنی مخلوق کے لیے کیسی کچھ محبت موجود ہوگی۔