ان آیات میں نہایت سبق آموز طریقے سے ان قوموں کی تباہی کا اصل سبب پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کی تاریخ پچھلے چھ رکوعوں میں بیان ہوئی ہے۔ اس تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جاتا ہے کہ صرف انہی قوموں کو نہیں، بلکہ پچھلی انسانی تاریخ میں جتنی قومیں بھی تباہ ہوئی ہیں ان سب کو جس چیز نے گرایا وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سے سرفراز کیا تو وہ خوشحالی کے نشے میں مست ہو کر زمین میں فساد برپا کرنے لگیں اور ان کا اجتماعی خمیر اس درجہ بگڑ گیا کہ یا تو ان کے اندر ایسے نیک لوگ باقی رہے ہی نہیں جو ان کو برائیوں سے روکتے، یا اگر کچھ لوگ ایسے نکلے بھی تو وہ اتنے کم تھے اور ان کی آواز اتنی کمزور تھی کہ ان کے روکنے سےفساد نہ رک سکا۔ یہی چیز ہے جس کی بدولت آخر کار یہ قومیں اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہوئیں، ورنہ اللہ کو اپنے بندوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ وہ تو بھلے کام کر رہے ہوں اور اللہ ان کو خوا ہ مخواہ عذاب میں مبتلا کر دے، ا س ارشاد سے یہاں تین باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں:- |