اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر ۱۱۵

ان آیات میں نہایت سبق آموز طریقے سے ان قوموں کی تباہی کا اصل سبب پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کی تاریخ پچھلے چھ رکوعوں میں بیان ہوئی ہے۔ اس تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جاتا ہے کہ صرف انہی قوموں کو نہیں، بلکہ پچھلی انسانی تاریخ میں جتنی قومیں بھی تباہ ہوئی ہیں  ان سب کو جس چیز نے گرایا وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سے سرفراز کیا تو وہ خوشحالی کے نشے میں مست ہو کر زمین میں فساد برپا کرنے لگیں اور ان کا اجتماعی خمیر اس درجہ بگڑ گیا کہ یا تو ان کے اندر ایسے نیک لوگ باقی رہے ہی نہیں جو ان کو برائیوں سے روکتے، یا اگر کچھ لوگ ایسے نکلے بھی تو وہ اتنے کم تھے  اور ان کی آواز اتنی کمزور تھی کہ ان کے روکنے  سےفساد نہ رک سکا۔ یہی چیز ہے جس کی بدولت آخر کار یہ قومیں اللہ تعالیٰ  کے غضب کی مستحق ہوئیں، ورنہ اللہ کو اپنے بندوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ وہ تو بھلے کام کر رہے ہوں اور اللہ ان کو خوا ہ مخواہ عذاب میں مبتلا کر دے، ا س ارشاد سے یہاں تین باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں:-
ایک یہ کہ ہر اجتماعی نظام میں ایسے نیک لوگون کا موجود  رہنا ضروری ہے جو خیر کی دعوت دینے والے اور شر سے روکنے والےہوں۔ اس لیے کہ خیر ہی وہ چیز ہے جو اصل میں اللہ کو مطلوب ہے ، اور لوگوں کے شرور کو اگر اللہ برداشت کرتا بھی ہے تو اس خیر کی خاطر کرتا ہے جو ان کے اندر موجود ہو، اور اُسی وقت تک کرتا ہے جب تک انکے اندر خیر کا کچھ امکان باقی رہے۔ مگر جب کوئی انسانی گروہ اہلِ خیر سے خالی ہو جائے اور اس میں صرف شریر لوگ ہی باقی رہ جائیں، یا اہلِ خیر موجود ہوں بھی تو کوئی ان کی سن کر نہ دے اور پوری قوم کی قوم اخلاقی فساد کی راہ پر بڑھتی چلی جائے، تو پھر خدا عذاب اس کے سر پر اس طرح منڈلانے لگتا ہے جیسے پورے دنوں کی حاملہ کہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کب اس کا وضع حمل ہو جائے۔
 دوسرے یہ کہ جو قوم اپنے درمیان سب کچھ برداشت کرتی ہو مگر صرف اُنہی چند گنے چُنے لوگوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو جو اسے برائیوں سے روکتے اور بھلائیوں کی دعوت دیتے ہوں ، تو سمجھ لو کہ اس کے برے دن قریب آگئے ہیں ، کیونکہ اب وہ خود ہی اپنی جان کی دشمن ہو گئی ہے ۔ اسے وہ سب چیزیں تو محبوب ہیں جو اس کی ہلاکت کی موجب ہیں اور صرف وہی ایک چیز گوارا نہیں ہے جو اس کی زندگی کی ضامن ہے۔
 تیسرے یہ کہ ایک قوم کے مبتلائے عذاب ہونے یا نہ ہونے کا آخری فیصلہ جس چیز پر ہوتاہے وہ یہ ہے کہ اس میں دعوت خیر پر لبیک کہنے والے عناصر کس حد تک موجود ہیں۔ اگر اس کے اندر ایسے افراد اتنی تعداد میں نکل آئیں جو فساد کو مٹانے اور نظام صالح کو قائم کرنے کے لیے کافی ہو تو اس پر عذاب عام نہیں  بھیجا جاتا بلکہ ان صالح عناصر کو اصلاح حال کو موقع دیا جاتا ہے لیکن اگر پیہم سعی و جہد کے باوجود اس میں سے اتنے آدمی نہیں نکلتے جو اصلاح کے لیے کافی ہو سکیں  ، اور وہ قوم اپنی گود سے  چند ہیرے پھینک دینے کے بعد اپنے طرزِ عمل سے ثابت کردیتی ہے کہ اب اس کے پاس کوئلے ہی کوئلے باقی رہ گئے ہیں ، تو پھر کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی کہ وہ بھٹی سلگا دی جاتی ہے جو ان کوئلوں کو پھونک کر رکھ دے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الذاریات ، حاشیہ نمبر ۳۴