اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر١۹

سلسلۂ کلام کےلحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جولوگ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو پر اور اس کی خوش نمائیوں پر فریفتہ ہیں اُن کے لیے تو قرآن کی دعوت کو رد کر دینا آسان ہے۔ مگر وہ شخص جو اپنی ہستی  اور کائنات کے نظام میں پہلے سے توحید و آخرت کی کھلی شہادت پا رہا تھا ، پھر قرآن نے آکر ٹھیک وہی بات کہی جس کی شہادت وہ پہلے سے اپنے اندر بھی پا رہا تھا اور باہر بھی ، اور پھر اس کی مزید تائید قرآن سے پہلے آئی ہوئی کتاب آسمانی میں بھی اسے مل گئی، آخر وہ کس طر ح  اتنی زبردست شہادتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر کے اِن منکرین کا ہم نوا ہو سکتا ہے ؟ اس ارشاد سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن سے پہلے ایمان بالغیب کی منزل سے گزر چکے تھے ۔ جس طرح سورۂ اَنعام میں حضرت ابراہیم کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ نبی ہونے سے پہلے آثارِ کائنات کے مشاہدے سے توحید کی معرفت حاصل کر چکے تھے، اسی طرح یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غور و فکر سے اس حقیقت کو پا لیا تھا اور اس کے بعد قرآن نے آپ کو حقیقت کا براہِ راست   کی بلک آکر اس کی  نہ صرف تصدیق و توثیق کا علم بھی عطا کر دیا گیا۔