اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۳

یعنی دنیا میں تمہارے ٹھیرنے کے لیے جو وقت مقرر  ہے اس وقت تک وہ تم کو بُری طرح نہیں بلکہ اچھی طرح رکھے گا۔ اس کی نعمتیں تم پر برسیں گی۔ اس کی برکتوں سے سرفراز ہوگے۔ خوش حال و فارغ البال رہو گے۔ زندگی میں امن اور چین نصیب ہوگا ۔ ذلت وخواری کے ساتھ نہیں بلکہ عزت و شرف کے ساتھ جیو گے۔ یہی مضمون دوسرے موقع  پر اس طرح ارشاد ہوا ہے کہ   مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْ مِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰو ۃً طَیِّبَۃً (النحل ۔ آیت ۹۷) ” جو شخص بھی ایمان کے ساتھ نیک عمل کرے گا ، خواہ مرد ہو یا عورت، ہم اس کو پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے“۔ اس سے لوگوں کی اُس غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود ہے جو شیطان نے ہر نادان دنیا پرست آدمی کو کان میں پھونک رکھی ہے کہ خدا ترسی اور راستبازی اور احساسِ ذمہ داری کا طریقہ اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت  بنتی ہو تو بنتی ہو،  مگر دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے۔ اور یہ کہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں فاقہ مستی و خستہ حالی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے۔  اللہ تعالیٰ اس کی تردید میں فرماتا ہے کہ اس راہِ راست کو اختیار کرنے سے تمہاری صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا بھی بنے گی۔ آخرت کی طرح اس دنیا  کی حقیقی عزت و کامیابی بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جو سچی خدا پرستی  کے ساتھ صالح زندگی بسر کریں۔ جن کے اخلاق پاکیزہ ہوں ، جن کے اخلاق پاکیزہ ہوں، جن کے معاملات درست ہوں ، جن پر ہر معاملہ میں بھروسہ کیا جا سکے، جن سے ہر شخص بھلائی کا متوقع ہو، جن سے کسی انسان کو یا کسی قوم کو شر کا اندیشہ نہ ہو۔
 اس کے علاوہ ”مَتَاعٌ حَسَنٌ“  کے الفاظ  میں ایک اور پہلو ہے جو نگاہ  سے اوجھل نہ رہ جانا چاہیے۔ دنیا کا سامانِ زیست قرآن مجید کی رو سے دو قسم کا ہے۔ ایک وہ سروسامان ہے جو خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لیے دیا جاتا ہے اور جس سے دھوکا کھا کر ایسے لوگ اپنے آپ کو دنیا پرستی و خدا فراموشی میں اور زیادہ گم کر دیتے ہیں۔ یہ بظاہر تو نعمت ہے مگر  بباطن خدا کی پھٹکار اور اس کے عذاب کا   پیش خیمہ  ہے۔ قرآن مجید اس کو ”مَتَاعٌ غُرُوْرٌ“ کے الفاظ سے یاد کرتا ہے ۔ دوسرا  وہ سروسامان  ہے جس سے انسان خوشحال اور قوی بازو ہو کر اپنے خدا کا اور زیادہ شکر گزار بنتا ہے ، خدا اور اس کے بندوں کے اور خود اپنے نفس کے حقوق زیادہ اچھی طرح ادا کرتا ہے ، خدا کے  دیے ہوئے وسائل سے طاقت پا کر دنیا میں کیر و صلاح کی ترقی اور شروفساد کے استیصال کے لیے زیادہ کار گر کوشش کرنے لگتا ہے۔ یہ قرآن کی زبان میں ”مَتَاعٌ حَسَنٌ“ ہے، یعنی ایسا اچھا سامانِ زندگی جو محض عیش دنیا ہی پر ختم  نہیں ہو جاتا  بلکہ نتیجہ میں عیش آخرت کا بھی ذریعہ  بنتا ہے۔