اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۴۲

 اس کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ۔ مگر ہمارے نزدیک صحیح وہی ہے جو قرآن کے صریح الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے کہ طوفان کی ابتدا  ایک خاص تنور سے ہوئِ جس کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ، پھر ایک طر ف آسمان سے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور دوسری طرف زمین میں جگہ جگہ سے چشمے پھوٹنے لگے۔ یہاں صرف تنور کے اُبل پڑنے کا ذکر ہے اور آگے چل کر بارش کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ مگر سورۂ  قمر میں اس کی تفصیل دی گئی ہے کہ  فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآ ءٍ مُّنْھَمِرٍ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآءُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ۔ ”ہم نے آسمان کے دروازے کھول دے جن سے لگا تار بارش برسنے لگی اور زمین کو پھاڑ دیا کہ ہر طرف چشمے پھوٹ نکلے اور یہ دونوں طرح کے پانی اُس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گئے جو مقدر کر دیا گیا تھا“۔(آیات ۱۱، ۱۲) نیز لفظ تنور پر الف لام داخل کرنےسے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تنور کو اس کام کی ابتدا کے لیے نام زد فرمایا تھا جو اشارہ پاتے ہی ٹھیک اپنے وقت پر ابل پڑا اور بعد میں طوفان والے تنور کی حیثیت سے معروف ہو گیا ، سورۂ مومنون آیت ۲۷ میں تصریح ہے کہ اس تنور کو پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا۔