اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۵۰

اس ارشاد کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ حضرت نوح کے اندر روح ایمان کی کم تھی، یا ان کے ایمان میں جاہلیت کا کوئی شائبہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ انبیاء بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور کوئی انسان بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا کہ ہر وقت اُس بلند ترین معیار کمال پر قائم رہے جو مومن کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع  پر نبی  جیسا اعلیٰ  و اشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہو جاتا ہے ۔ لیکن جونہی کہ اسے یہ احساس ہوتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے احساس کرا دیا جاتا ہے کہ اس کا قدم معیار مطلوب  سے نیچے جا رہا ہے ، و ہ فورًا توبہ کرتا ہے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں اس ایک لمحہ کے لیے بھی تَامُل نہیں ہوتا۔ حضرت نوح کی اخلاقی رفعت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ابھی جان  جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے غرق ہوا ہے  اور اس نظارہ سے کلیجہ منہ کو آرہا ہے ، لیکن جب اللہ تعالیٰ اُنہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض ا س لیے   اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محص ایک جاہلیت کا جذبہ ہے، تو وہ فورًا اپنے دل کے زخم سے بے پروا ہو کر اُس طرزِ فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے۔