اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۵٦

 یہ نہایت بلیغ فقرہ ہے کہ جس میں ایک بڑا استدلال سمیٹ دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری بات کو جس طرح سرسری طور پر تم نظر انداز کر رہے ہو اور اس  پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ ورنہ اگر تم عقل سے کام لینےوالے ہوتے تو ضرور سوچتے کہ  جو شخص اپنی کسی ذاتی غرض کے بغیر دعوت و تبلیغ اور تذکیر و نصیحت کی یہ سب مشقیں جھیل رہا ہے ، جس کی اس تگ و دو میں تم کسی شخصی یا خاندانی مفاد کا شائبہ تک نہیں پا سکتے، وہ ضرو ر اپنے پاس یقین و اذعان  کی کوئی ایسی بنیاد اور ضمیر کے اطمینان کی کوئی ایسی وجہ رکھتا ہے جس کی بنا پر  اس نے اپنا عیش و آرام چھوڑ کر ، اپنی دنیا بنانے کی فکر سے بے پروا ہو کر ، اپنے آپ کو اس جو کھم میں ڈالا ہے کہ صدیوں  کے جمے اور رچے ہوئے عقائد، رسوم اور طرزِ زندگی کے خلاف آواز اُٹھائے  اور اس کی بدولت دنیا بھر کی دشمنی مول لے لے۔ ایسے شخص کی بات کم ازکم اتنی بے وزن تو نہیں ہو سکتی کہ بغیر سوچے سمجھے اسے یونہین ٹال دیا جائے اور اس پر سنجیدہ غور و فکر کی ذرا سی تکلیف بھی ذہن کو نہ دی جائے۔