اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۵۷

یہ وہی بات ہے جو  پہلے رکوع میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوائی گئی تھی کہ”اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو ہوہ تم  کو اچھا سامانِ زندگی دے گا“۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت ہی میں نہیں اس دنیا میں بھی قوموں کی قسمتوں کا اتار چڑھاؤ اخلاقی  بنیادوں پر ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عالم پر جو فرمانروائی کر رہا ہے وہ اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے  نہ کہ اُن  طبعی اصولوں پر  جو اخلاقی خیر و شر کے امتیاز خالی ہوں۔ یہ بات کئی مقامات پر قرآن میں فرمائی گئی ہے کہ جب ایک قوم کے پاس نبی کے ذریعہ سے خدا کا پیغام پہنچتا ہے تو اس کی قسمت  اُس پیغام کے ساتھ معلق ہو جاتی ہے۔ اگر وہ اسے قبول کر لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر رد کر دیتی ہے تو  اسے تباہ کر ڈالا جاتا ہے ۔ یہ گویا  ایک دفعہ ہے اُس  اخلاقی قانون کی جس پر اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ  معاملہ کر رہا ہے۔ اِسی طرح اس قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ جو قوم دنیا کی خوشحالی  سے فریب کھا کر ظلم و معصیت  کی راہوں  پر چل نکلتی ہے اس کا انجام بربادی ہے۔ لیکن عین اس وقت جبکہ وہ اپنے اس بُرے انجام کی طرف بگ ٹُٹ چلی جا رہی ہو، اگر وہ اپنی غلطی کو محسوس کر لے اور نافرمانی چھوڑ کر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے تو اس کی قسمت بدل جاتی ہے ، اس کی مہلت عمل میں اضافہ  کر دیا جاتا ہے اور مستقل میں اس کے لیے  عذاب کے بجائے انعام، ترقی اور سرفرازی کا فیصلہ لکھ دیا جاتا ہے۔