اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۸۳

”جھگڑے“  کا لفظ اس موقع پر اُس انتہائی محبت اور ناز کے تعلق کو  ظاہر کرتا ہے جو حضرت ابراہیمؑ اپنے خدا کے ساتھ رکھتے تھے۔ اس لفظ سے یہ تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے  کہ بندے اور خدا کے درمیان بڑی دی تک ردوکد جاری رہتی ہے۔ بندہ اصرار کررہا ہے کہ کسی طرح قومِ لوطؑ پر سے عذاب ٹال دیا جائے۔ خدا جواب میں کہہ رہا ہے کہ یہ قوم اب خیر سے بالکل خالی ہو چکی ہے اور اس کے جرائم اس حد تک گزر چکے ہیں  کہ اس کے ساتھ کوئی رعایت کی جاسکے۔ مگر بندہ ہے کہ پھر یہی کہے جاتا ہے کہ ”پروردگار، اگر کچھ تھوڑی سی بھلائی بھی اس میں باقی ہو تو اسے اور ذرا مہلت دے دے، شاید کہ وہ بھلائی پھل لے آئے“، بائیبل میں اس جھگڑے کی کچھ تشریح بھی بیان ہوئی ہے ، لیکن قرآن کا مجمل بیان اپنے اندر اس سے زیادہ معنوی وسعت رکھتا ہے  ۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب پیدائش، باب ۱۸، آیت ۲۳ – ۳۲)