اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۹٦

یہ دراصل ایک طعن آمیز فقرہ ہے جس کی روح آج بھی آپ ہر اُس سوسائٹی میں پائیں گے جو خدا سے غافل اور فسق و فجور میں ڈوبی ہوئی ہو۔ چونکہ نماز دینداری کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ نمایاں مظہر ہے، اور دینداری کو فاسق و فاجر لوگ ایک خطرناک ، بلکہ سب سے زیادہ خطرناک مرض سمجھتے ہیں، اس لیے نماز ایسے لوگوں کی سوسائٹی میں عبادت کے بجائے علامتِ مرض شمار ہوتی ہے۔ کسی شخص کو اپنے درمیان نماز پڑھتے دیکھ کر انہیں فورًا یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اس شخص پر ”مرضِ دینداری“ کا حملہ ہو گیا ہے۔ پھر یہ لوگ دینداری کی اس خاصیت کو بھی جانتے ہیں کہ یہ چیز جس شخص کے اندر پیدا ہو جاتی ہے وہ صرف اپنے حسنِ عمل پر قانع نہیں رہتا  بلکہ دوسروں کو بھی درست کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بے دینی و بد اخلاقی پر تنقید کیے بغیر اُس سے رہا نہیں جاتا، اس لیے نماز پر ان کا اضطراب صرف  اسی حیثیت سے نہیں ہوتا کہ ان کے ایک بھائی پر دینداری کا دورہ پڑ گیا ہے ، بلکہ اس کے ساتھ انہیں یہ کھٹکا بھی لگ جاتا ہے کہ اب عنقریب اخلاق و دیانت کا وعظ شروع ہو نے والا ہے اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو  میں کیڑے نکالنے کا ایک لا متناہی سلسلہ چھڑ اچاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی سوسائٹی میں نماز سب سے بڑھ کر طعن و تشنیع کی ہدف بنتی ہے ۔ اور اگر کہیں نمازی آدمی ٹھیک ٹھیک اُنہی اندیشوں کے مطابق ، جو ا س کی نماز سے پہلے ہی پیدا ہو چکے تھے، برائیوں پر تنقید اور بھلائیوں کی تلقین بھی شروع کر دے تب تو نماز اس طرح کوسی جاتی ہے کہ گویا یہ ساری بلا  اسی کی لائی ہوئی ہے۔