اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر١

قرآن مصدر ہے قَرَأَ یَقرأ سے۔ اس کے اصل معنی میں”پڑھنا“۔ مصدر کو کسی چیز کے لیے جب نام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس شے کے اندر معنی مصدری بدرجہٴ کمال پایا جاتا ہے۔ مثلاً جب کسی شخص کو ہم بہادر کہنے کے بجائے ”بہادری“کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے اندر شجاعت ایسی کمال درجہ کی پائی جاتی ہے کہ گویا وہ اور شجاعت ایک چیز ہیں۔ پس اس کتاب کا نام ”قرآن“(پڑھنا) رکھنے کا مطلب یہ ہُوا کہ یہ عام و خاص سب کے پڑھنے کے لیے ہے اور بکثرت پڑھی جانے والی چیز ہے۔