اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر١۷

تلمود میں اس عورت کا نام زَلِیخا (Zelicha ) لکھا ہے اور یہیں سے یہ نام مسلمانوں کی روایات میں مشہور ہُوا۔ مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے حضرت یوسف ؑ کا نکاح ہُوا، اس کی کوئی اصل نہیں ہے،نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی کے مرتبے سے یہ بات بہت فروتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بدچلنی کا اس کو ذاتی تجربہ ہوچکا ہو۔ قرآن مجید میں یہ قاعدہٴ کلیہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اَلخَبِیثٰتُ لِلخَبِیثِینَ وَالخَبِیثُونَ للخَبِیثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ  لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبٰتِ۔بُری عورتیں بُرے مَردوں کے لیے ہیں اور بُرے مرد بُری عورتوں کے لیے۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے۔