اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر١۹

حضرت یوسف ؑ کی تربیت اس وقت تک صحرا میں نیم خانہ بدوشی اور گلہ بانی کے ماحول میں ہوئی تھی۔ کنعان اور شمالی عرب کے علاقے میں اس وقت نہ کوئی منظم ریاست تھی اور نہ تمدّن و تہذیب نے کوئی بڑی ترقی کی تھی۔ کچھ آزاد قبائل تھے جو وقتاً فوقتاً ہجرت کرتے رہتے تھے، اور بعض قبائل نے مختلف علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کرکے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی بنالی تھیں۔ ان لوگوں کا حال مصر کے پہلو میں قریب قریب وہی تھا جو ہماری شمال مغربی سرحد پر آزاد علاقہ کے پٹھان قبائل کا ہے۔ یہاں حضرت یوسف ؑ کو جو تعلیم و تربیت ملی تھی اس میں بدویانہ زندگی کے محاسن اور خانواوہٴ ابراہیمی کی خداپرستی و دینداری کے عناصر تو ضرور شامل تھے، مگر اللہ تعالیٰ اُس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک، یعنی مصر میں اُن سے جو کام لینا چاہتا تھا، اور اس لے لیے جس واقفیت ، جس تجربے اور جس بصیرت کی ضرورت تھی، اس کے نشونما کا کوئی موقع بدوی زندگی میں نہ تھا۔ اس لیے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ انتظام فرمایا کہ انہیں سلطنت مصر کے ایک بڑے عہدہ دار کے ہاں پہنچا دیا اور اس نے ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں اپنے گھر اور اپنی جاگیر کا مختا کال بنادیا۔ اس طرح یہ موقع پیدا ہوگاا کہ ان کی وہ تمام قابلیتیں پوری طرح نشونما پاسکیں جواب تک بروئے کار نہیں آئی تھیں اور انہیں ایک چھوٹی جاگیر کے انتظام سے وہ تجربہ حاصل ہوجائے جو آئندہ ایک بڑی سلطنت کا نظم و نسق چلانے کے لیے درکار تھا۔ اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔