اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۲

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کتاب مخصوص طور پر اہلِ عرب ہی کے لیے نازل کی گئی ہے۔ بلکہ اس فقرے کا اصل مدّعا یہ کہنا ہے کہ ”اے اہلِ عرب، تمہیں یہ باتیں کسی یونانی یا ایرانی زبان میں تو نہیں سنائی جارہی ہیں، تمہاری اپنی زبان میں ہیں، لہٰذا تم نہ تو یہ عذر پیش کرسکتے ہوکہ یہ باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور نہ یہی ممکن ہے کہ اس کتاب میں اعجاز کے جو پہلو میں، جو اس کے کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتے ہیں، وہ تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ رہ جائیں“۔
بعض لوگ قرآن مجید میں اس طرح کے فقرے دیکھ کر اعتراض پیش کرتے ہیں کہ یہ کتاب تو اہلِ عرب کے لیے ہے، غیر اہلِ عرب کے لیے نازل ہی نہیں کی گئی ہے، پھر اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت کیسے کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ محض ایک سرسری سا اعتراض ہے جو حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر جڑدیا جاتا ہے۔ انسانوں کی عام ہدایت کے لیے جو چیز بھی پیش کی جائے گی وہ بہرحال انسانی زبانوں میں سے کسی ایک زبان ہی میں پیش کی جائے گی، اور اس کے پیش کرنے والے کی کوشش یہی ہوگی کہ پہلے وہ اُس قوم کو اپنی تعلیم سے پوعی طرح متاثر کرے جس کی زبان میں وہ اسے پیش کررہا ہے، پھر وہی قوم دوسری قوموں تک اس تعلیم کے پہنچنے کا وسیلہ بنے۔ یہی ایک فطری طریقہ ہے کسی دعوت و تحریک کے بین الاقوامی پیمانے پر پھیلنے کا۔