اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۲١

عام طور پر مفسرین اور مترجمین نے یہ سمجھا ہے کہ یہاں ”میرے رب“کا لفظ حضرت یوسف ؑ نے اُس شخص کے لیے استعمال کیا ہے جس کی ملازمت میں وہ اُس وقت تھے اور ان کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ میرے آقا نے تو مجھے ایسی اچھی طرح رکھا ہے، پھر میں یہ نمک حرامی کیسے کرسکتا ہوں کہ اس کی بیوی سے زنا کروں۔ لیکن مجھے اس ترجمہ و تفسیر سے سخت اختلاف ہے۔ اگرچہ عربی زبان کے اعتبار سے یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے، کیونکہ عربی میں لفظ رب ”آقا“کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ بات ایک نبی کی شان سے بہت گری ہوئی ہے کہ وہ ایک گناہ سے باز رہنے میں اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی بندے کا لحاظ کرے۔ اور قرآن میں اس کی کوئی نظیر بھی موجود نہیں ہے کہ کسی نبی نے خدا کے سوا کسی اور کو اپنا رب کہا۔ آگے چل کر آیات ۴١، ۴۲، ۵۰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیّدنا یوسف ؑ اپنے اور مصریوں کے مسلک کا یہ فرق بار بار واضح فرماتے ہیں کہ اُ ن کا رب تو اللہ ہے اور مصریوں نے بندوں کو اپنا رب بنارکھا ہے۔ پھر جب  آیت کے الفاظ میں یہ مطلب لینے کی بھی گنجائش موجود ہے کہ حضرت یوسف ؑ نےرَبّی کہہ کر اللہ کی ذات مراد لی ہو، تو کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ایسے معنی کو اختیار کریں جس میں صریحاً قباحت کا پہلو نکلتا ہے۔