اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۲۲

برہان کے معنی ہیں دلیل اور حجت کے۔ رب کی برہان سے مراد خدا کی سُجھائی ہوئی دلیل ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف ؑ کے ضمیر نے اُن کے نفس کو اس بات کا قائل کیا کہ اِس عورت کی دعوتِ عیش قبول کرنا تجھے زیبا نہیں ہے۔ اور وہ دلیل تھی کیا؟ اسے پچھلے فقرے میں بیان کیا جاچکا ہے، یعنی یہ کہ ”میرے رب نے تو مجھے یہ منزلت بخشی اور میں ایسا بُرا کام کروں، ایسے ظالموں کو کبھی فلاح نصیب نہیں ہُوا کرتی“۔ یہی وہ برہانِ حق تھی جس نے سیّدنا یوسف ؑ  کو اس نوخیز جوانی کے عالم میں ایسے نازک موقع پر معصیت سے باز رکھا۔ پھر یہ جو فرمایا کہ ”یوسف ؑ بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا“ تو اس سے عصمت انبیاء کی حقیقت پر بھی پوری روشنی پڑجاتی ہے۔ نبی کی معصومیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے گناہ اور لغزش و خطا کی قوت و استعداد سلب کرلی گئی ہے حتٰی کہ گناہ کا صدور اس کے امکان ہی میں نہیں رہا ہے۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے لیکن بشریت کی تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود، اور جملہ انسانی جذبات، احساسات اور خواہشات رکھتے ہوئے بھی وہ ایسا نیک نفس اور خداترس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا۔ وہ اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے جن کے مقابلہ میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی۔ اور اگر نادانستہ اس سے کوئی لغزش سرزد ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فوراً وحی جلی کے ذریعہ سے اس کی اصلاح فرمادیتا ہے، کیونکہ اس کی لغزش تنہا ایک شخص کی لغزش نہیں ہے، ایک پوری اُمت کی لغزش ہے۔ وہ راہِ راست سے بال برابر ہٹ جائے تو دنیا گمراہی میں میلوں دور نکل جائے۔