اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۲۴

اس معاملہ کی نوعیت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ صاحب خانہ کے ساتھ خود اس عورت کے بھائی بندوں میں سے بھی کوئی شخص آرہا ہوگا اور اس نے یہ تضیہ سُن کر کہا ہوگا کہ جب یہ دونوں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں اور موقع کا گواہ کوئی نہیں ہے تو قرینہ کہ شہادت سے اس معاملہ کی یوں تحقیق کی جاسکتی ہے بعض روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ موادت پیش کرنے والا ایک شیر خوار بچہ تھا جو وہاں پنگھڑے میں لیٹا ہُوا تھا اور خدانے اسے گویائی عطا کرکے اس سے یہ شہادت دلوائی۔ لیکن یہ روایت نہ تو کسی صحیح سند سے شہادت ہے اور نہ اس معاملے میں خواہ مخواہ معجزے سے مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی محسوس ہوتی ہے۔ اُ س شاہد نے قرینے کی جس شہادت کی طرف توجہ دلائی ہے وہ سراسر ایک معقول شہادت ہے اور اس کو دیکھنے سے بیک نظر معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ مخص ایک معاملہ فہم اور جہاندیدہ آدمی تھا جو صورت معاملہ سامنے آتے ہی اس کی تہ کو پہنچ گیا۔ بعید نہیں کہ وہ کوئی جج یا مجسٹریٹ ہو۔ (مفسّرین کے ہاں شیر خور بچے کی شہادت کا قصہ دراصل یہودی روایات سے آیا ہے۔ ملاحظہ ہو اقتباساتِ تَلمود ازپال اسحاق ہرشون، لندن، سن ١۸۸۰۔صفحہ ۲۵٦