اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۲۷

اس سے اندازہ  ہوتا ہے کہ اُس وقت مصر کے اونچے طبقوں کی اخلاقی حالت کیا تھی۔ ظاہر ہے کہ عزیز کی بیوی نے جن عورتوں  کو بلایا ہو گا وہ امراء و رؤسا اور بڑے  عہدہ داروں کے گھر کی بیگمات ہی ہوں گی۔ ان عالی مرتبہ خواتین کے سامنے وہ اپنے محبوب نوجوان کو پیش کرتی ہے اور اس کی خوبصورت جوانی دکھا کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ایسے جوانِ رعنا پر میں مر نہ مٹتی  تو آخر اور کیا کرتی۔ پھر یہ بڑے گھروں کی بہو بیٹیاں خود بھی اپنے عمل سے گویا اس امر کی تصدیق فرماتی ہیں کہ واقعی ان میں سے ہر ایک ایسے حالات میں وہی کچھ کرتی جو بیگم عزیز نے کیا۔ پھر شریف خواتین کی اس بھر ی مجلس میں معزز میزبان کو علانیہ اپنے اِس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ اگر اس کا خوبصورت غلام اس کی خواہشِ نفس کا کھلونا  بننے پر راضی نہ ہو ا تو وہ اسے جیل بھجوا دے گی۔ یہ سب کچھ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ یورپ اور امریکہ  اور ان کے مشرقی مقلدین آج عورتوں کی جس آزادی و بے باکی کو بیسویں صدی کا کرشمہ سمجھ رہے ہیں وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ، بہت پرانی چیز ہے۔ دقیانوس  سے سیکڑوں برس پہلے مصر میں یہ اسی شان کے ساتھ پائی جاتی تھی جیسی آج اِس ”روشن زمانے“ میں پائی جا رہی ہے۔