اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۳۰

اس طرح حضرت یوسف ؑ  کا قید میں ڈالا جانا درحقیقت ان کی اخلاقی فتح اور مصر کے  پورے طبقہ امراء وحکام کی اخلاقی شکست کا اِتمام و اعلان تھا۔ اب حضرت یوسف ؑ  کوئی غیر معرف اور گمنام آدمی نہ رہے تھے۔ سارے ملک میں، اور کم از کم دارالسلطنت میں تو عام و خاص سب ان سے واقف ہو چکے تھے۔ جس شخص کی دلفریب شخصیت پر ایک دونہیں، اکثر و بیشتر بڑے گھرانوں کی خواتین فریفتہ ہوں ، اور جس کے فتنہ روزگار حُسن سے اپنے گھر بگڑتے دیکھ کر مصر کے حکام نے اپنی خیریت اسی میں دیکھی ہو کہ اسے قید کردیں، ظاہر ہے کہ ایسا شخص چھپا نہیں رہ سکتا تھا ۔ یقیناً گھر گھر اس کا چرچا پھیل گیا ہوگا۔ عام طور پر لوگ اس بات سے بھی واقف ہوگئے ہوں گے کہ یہ شخص کیسے بلند اور مضبوط اور پاکیزہ اخلاق کا انسان ہے، اور یہ بھی جان گئے ہوں گے  کہ اس  شخص کو جیل اپنے کسی جرم پر نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ مصر کے امراء اپنی عورتوں کو قابو میں رکھنے کے بجائے اس بے گناہ کو جیل بھیج دینا زیادہ آسان پاتے تھے۔
                اس سے یہ بھی معلو م  ہوا کہ  کسی شخص کو شرائط انصاف کے مطابق عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر، بس یونہی پکڑ کر جیل بھیج دینا، بے ایمان حکمرانوں کی پرانی سنت ہے۔ اس معاملہ میں بھی آج کے شیاطین چار ہزار برس پہلے کے اشرار سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ فرق اگر ہے تو بس یہ کہ وہ” جمہوریت“کا نام نہیں لیتے تھے، اور یہ اپنے اِن کرتوتوں کے ساتھ یہ نام بھی لیتے ہیں۔ وہ قانون کے بغیر اپنی غیر قانونی حرکتیں کیا کرتے تھے، اور یہ ہر ناروازیادتی کے لیے پہلے ایک”قانون“ بنا لیتے ہیں۔ وہ صاف صاف اپنی اغراض کے لیے لوگوں پر دست درازی کرتے تھے اور یہ جس پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس کے متعلق دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نے اِن کو نہیں بلکہ ملک اور قوم کو خطرہ تھا۔ غرض وہ صرف ظالم تھے۔ یہ اس کے ساتھ جھوٹے اور بے حیا بھی ہیں۔