اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۳۳

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قید خانے میں حضرت یوسف ؑ کس نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اوپر جن واقعات کا ذکر گزر چکا ہے ان کو پیش نظر رکھنے سے یہ بات قابل تعجب نہیں رہتی کہ ان دوقیدیوں نے آخر حضرت یوسف ؑ ہی سے آکر اپنے خواب کی تعبیر کیوں پوچھی اور ان کی خدمت میں یہ نذرِ عقیدت کیوں پیش کہ کہ اِنَّا نَرٰکَ مِنَ المُحسِنِینَ ۔ جیل کے اندر اور باہر سب لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص کوئی مجرم نہیں ہے بلکہ ایک نہایت نیک نفس آدمی ہے، سخت ترین آزمائشوں میں اپنی پر ہیز گاری کا ثبوت دے چکاہے، آج پورے ملک میں اس سے زیادہ نیک انسان کوئی نہیں ہے ،حتٰی کہ ملک کے مذہبی پیشواؤں میں بھی اس کی نظیر مفقود ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ نہ صرف قیدی ان کو عقیدت کی نگا ہ سے دیکھتے تھے بلکہ قید خانے کے حکام اور اہل کار تک ان کے معتقد ہو گئے تھے۔ چنانچہ بائیبل میں ہے کہ ”قید خانے  کی داروغہ نے سب قیدیوں کو جو قید میں تھے یوسف ؑ کے ہاتھ میں سونپا اور جو کچھ وہ کرتے اسی حکم سے کرتے تھے، اور قید خانے کا داروغہ سب کاموں کی طرف سے جو اس کے ہاتھ میں تھے بے فکر تھا“۔(پیدائش ۳۹:۲۳،۲۲)