اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۳۵

اس مقام کی تفسیر بعض مفسرین نے یہ کی ہے کہ ”شیطان نے حضرت یوسف ؑ کو اپنے رب(یعنی اللہ تعالیٰ) کی یاد سے غافل کردیا اور انہوں نے ایک بندے سے چاہا کہ وہ اپنے رب(یعنی شاہ مصر) سے ان کا تذکرہ کر کے ان کی رہائی کی کوشش کرے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزادی کہ وہ کئی سال تک جیل میں پڑے رہے“۔  درحقیقت یہ تفسیر بالکل غلط ہے۔ صحیح یہی ہے، جیسا کہ علامہ ابن کثیر، اور متقد مین میں سے مجاہد اور محمد بن اسحاق وغیرہ نے کہاہے کہ فا نساہ الشیطان ذکر ربّہ کی ضمیر اس شخص کی طر پھرتی ہے جس کے متعلق حضرت یوسف ؑ کا گمان تھا کہ وہ  رہائی پانے والا ہے، اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ”شیطان نے اسے اپنے آقا سے حضرت یوسف ؑ کا ذکر کرنا بھلا دیا“۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اگر یوسف علیہ السلام نے وہ بات نہ کہی ہوتی جو انہوں نے کہی تو وہ قید میں کئی سال نہ پڑے رہتے“۔ لیکن علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ  ”یہ حدیث جتنے طریقوں سے روایت کی گئی ہے وہ سب ضعیف ہیں۔ بعض طریقوں سے یہ مرفوعاً روایت کی گئی ہے اور ان میں سفیان بن وکیع اور ابراہیم بن یزیدراوی ہیں جو دونوں ناقابل اعتماد ہیں ۔ اور بعض طریقوں سے یہ مُرسَلاً روایت ہوئی ہے اور ایسے معاملات میں مُرسلات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا“۔ علاوہ بریں و رایت کے اعتبار سے بھی یہ  بات باور کرنے کے قابل نہیں ہے کہ ایک مظلوم شخص کا اپنی رہائی کے لیے دنیوی تدبیر کرنا خدا سے غفلت اور توکل کے فقدان کی دلیل قرار دیا گیا ہوگا۔