اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر٦۰

یعنی یہ بات حضرت یوسف ؑ کی شان پیغمبری کے شایاں نہ تھی کہ وہ اپنے ایک ذاتی معاملہ میں شاہ مصر کے قانون پر عمل کرتے۔ اپنے بھائی کو روک رکھنے کے لیے انہوں نے خود جو تدبیر کی تھی اس  میں خلل رہ گیا تھا کہ بھائی کو روکا تو ضرور جاسکتا تھا مگر شاہ مصر کے قانونِ تعزیرات سے کام لینا پڑتا، اور یہ اس پیغمبر کی شان کے مطابق نہ تھا جس نے اختیاراتِ حکومت غیر اسلامی قوانین کی جگہ اسلامی شریعت نافذ کرنے کے لیے اپنے ہاتھ میں لیے تھے۔ اگر اللہ چاہتا تو اپنے نبی کو  اس بدنما غلطی میں مبتلا ہوجانے دیتا، مگر اس نے یہ گوارا نہ کیا کہ یہ دھبہ اس کے دامن پر رہ جائے، اس لیے اس نے براہ راست اپنی تدبیر سے یہ راہ نکال دی کہ اتفاقاً برادران یوسف ؑ سے چور کی سزا پوچھ لی گئی اور انہوں نے اس کے لیے شریعتِ ابراہیمی کا قانون بیان کردیا۔ یہ چیز اس لحاظ سے بالکل برمحل تھی کہ برادران یوسف ؑ مصری رعایا نہ تھے، ایک آزاد علاقے سے آئے ہوئے لوگ تھے، لہٰذا اگر وہ خود اپنے ہاں کے دستور کے مطابق اپنے آدمی کو اُس شخص کی غلامی میں دینے کے لیے تیار تھے جس کا مال اس نے چرایا تھا، تو پھر مصری قانونِ تعزیرات سے اس معاملہ میں مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہی وہ چیز ہے جس کو بعد کی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان اور اپنی علمی برتری سے تعبیر فرمایا ہے۔ ایک بندے کے لیے اس سے بڑھ کر بلندیِ درجہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ اگر وہ کبھی بشری کمزوری کی بنا پر خود کسی لغزش میں مبتلا ہو رہا ہو تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کو بچانے کا انتظام فرمادے۔ ایسا بلند مرتبہ صرف انہی لوگوں کو ملا کرتا ہے جو اپنی سعی و عمل سے بڑی بڑی آزمائشوں میں اپنا ”محسن“ ہونا ثابت کرچکے ہوتے ہیں۔ اور اگر چہ حضرت یوسف ؑ صاحبِ علم تھے، خود بہت دانشمندی کے ساتھ کام کرتے تھے، مگر پھر بھی اس موقع پر ان کے علم میں ایک کسر رہ ہی گئی اور اُسے اس ہستی نے پورا کیا جو ہر صاحب علم سے بالاتر ہے۔
یہاں چند امور اور وضاحت طلب رہ جاتے ہیں جن پر ہم مختصر کلام کریں گے:
(١) عام طور پر اس آیت کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ ”یوسف ؑ بادشاہ کے قانون کی رو سے اپنے بھائی کو نہ پکڑ سکتا تھا“۔ یعنی ماکان لیاخذ کو مترجمین و مفسرین عدم قدرت کے معنی میں لیتے ہیں نہ کہ عدم صحت اور عدم مناسبت کے معنی میں۔ لیکن اوّل تو یہ ترجمہ و تفسیر عربی محاورے اور قرآنی استعمالات دونوں کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ عربی میں عموماً ماکان لہ بمعنی ما ینبغی لہ، ماصح لہ، ما استقام لہُ، وغیرہ آتا ہے اور قرآن میں بھی یہ زیادہ تر اسی معنی میں آیا ہے۔ مثلاً  مَا کَانَ اللہُ اَن یَّتَّخِذَ مِن وَّلَدٍ۔ مَاکَانَ لَنَآ اَن نُّشرِکَ بِا للہِ مِن شَی ءٍ۔ مَا کَانَ اللہُ لِیُطلِعَکُم عَلَی الغَیبِ۔ مَاکَانَ اللہُ لِیُضِیعَ اِیمَانَکُم۔ فَمَا کَانَ اللہُ لِیَظلِمَہُم۔ مَاکَانَ اللہُ لِیَذَرَالمُوٴمِنِینَ عَلیٰ مَآ اَنتُم عَلَیہِ۔ مَا کَانَ ،ِمُوٴمِنٍ اَن یَّقتُلَ مُوٴ مِنًا۔ دوسرے اگر اس کے وہ معنی لیے جائیں جو مترجمین و مفسرین بالعموم بیان کرتے ہیں تو بات بالکل مہمل ہوجاتی ہے۔ بادشاہ کے قانون میں جور کو نہ پکڑسکنے کی آخر وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ کیا دنیا میں کبھی کوئی سلطنت ایسی بھی رہی ہے جس کا قانون چور کو گرفتار کرنے کی اجازت نہ دیتا ہو؟
(۲) اللہ تعالیٰ نے شاہی قانون کے لیے ”دین الملک“ کا لفظ استعمال کرکے خود اُس مظلب کی طرف اشارہ فرمادیا ہے جو ماکان لیاخذ سے لیا جانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کا پیغمبر زمین میں”دین اللہ“جاری کرنے کے لیے مبعوث ہُوا تھا نہ کہ ”دین الملک“ جاری کرنے کے لیے۔ اگر حالات کی مجبوری سے اُس کی حکومت میں اُس وقت تک پوری طرح دین الملک کی جکہ دین اللہ جاری نہ ہوسکا تھا  تب بھی کم از کم پیغمبر کا اپنا کام تو یہ نہ تھا کہ اپنے ایک شخصی معاملہ میں دین الملک پر عمل کرے۔ لہٰذا حضرت یوسف ؑ کا دین الملک کے مطابق اپنے بھائی کو نہ پکڑنا اس بنا پر نہیں تھا کہ دین الملک میں ایسا کرنے کی گنجائش نہ تھی، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ پیغمبر ہونے کی حیثیت سے اپنی ذاتی حد تک دین اللہ پر عمل کرنا ان کا فرض تھا اور دین الملک کی پیروی ان کے لیے قطعاً نامناسب تھی۔
(۳) قانون مُلکی(Law of the land ) کے یے لفظ ”دین“ استعمال کرکے اللہ تعالیٰ نے معنی دین کی وسعت پوری طرح واضح کردی ہے۔ اِس سے اُن لوگوں کے تصورِ دین کی جڑ کٹ جاتی ہےجو انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو صرف عام مزہبی معنوں میں خدائے واحد کی پوجا کرانے اور محض چند مزہبی مراسم و عقائد کی پابندی کرالینے تک محدود سمجھتے ہیں، اور یہ خیال کرتے ہیں کہ انسانی تمدّن ، سیاست، معیشت، عدالت، قانون اور ایسے ہی دوسرے دنیوی امور کا کوئی تعلق دین سے نہیں ہے، یا اگر ہے بھی تو ان اُمور کے بارے میں دین کی ہدایات محض اختیاری سفارشات  ہیں جب پر اگر عمل ہوجائے تو اچھا ہے ورنہ انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے اصول و ضوابط قبول کرلینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ سراسر گمراہانہ تصورِدین، جس کا ایک مدت سے مسلمانوں میں چرچا ہے، جو بہت بڑی حد تک مسلمانوں کو اسلامی نظامِ زندگی کے عیام کی سعی سے غافل کرنے کا ذمہ دار ہے، جس کی بدولت مسلمان کفر و جاہلیت کے نظامِ زندگی پر نہ صرف راضی ہوئے بلکہ ایک نبی کی سنت سمجھ کر اس نظام کے پُرزے بننے اور اس کو خود چلانے کے لیے بھی آمادہ ہوگئے، اِس آیت کی رو سے قطعاً غلط ثابت ہوتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ صاف بتارہا ہے کہ جس طرح نماز، روزہ اور حج دین ہے اسی طرح وہ قانون بھی دین ہے جس پر سوسائٹی کا نظام اور ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے۔ لہٰذا اِنَّ الدِّینَ عِندَاللہِ الاِسلَامُ اوروَمَن یَّبتَغِ غَیرَالاِسلَامِ دِینًا فَلَن یُّقبَلَ مِنہُ وغیرہ آیاتمیں جس دین کی اطاعت کا مطالبہ کیا گیا ہے اس سے مراد صرف نماز، روزہ ہی نہیں ہے بلکہ اسلام کا اجتماعی نظام بھی ہے جس سے ہٹ کر کسی دوسرے نظام کی پیروی خدا کے ہاں ہرگز مقبول نہیں ہوسکتی۔
(۴) سوال کیا جاسکتا ہے کہ اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت تک مصر کی حکومت میں”دین الملک“ ہی جاری تھا۔ اب اگر اس حکومت کے حاکم اعلیٰ حضرت یوسف ؑ ہی تھے، جیسا کہ تم خود پہلے ثابت کرچکے ہو، تو اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ ، خدا کے پیغمبر، خود اپنے ہاتھوں سے ملک میں ”دین الملک“ جاری کررہے تھے۔ اس کے بعد اگر اپنے ذاتی معاملہ میں حضرت یوسف ؑ نے ”دین الملک“ کے بجائے شریعت ابراہیمی پر عمل کیا بھی تو اس سے فرق کیا واقع ہُوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ مامور تو دین اللہ جاری کرنے ہی پر تھے اور یہی ان کا پیغمبرانہ مشن اور ان کی حکومت کا مقصد تھا، مگر ایک ملک کا نظام عملاً ایک دن کے اندر نہیں بدل جایا کرتا۔ آج اگر کوئی ملک بالکلیہ ہمارے اختیار میں ہو اور ہم اس میں اسلامی نظام قائم کرنے کی خالص نیت ہی سے اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں، تب بھی اس کے نظام تمدّن، نظامِ معاشی، نظام سیاست اور نظام عدالت و قانون کو بالفعل بدلتے بدلتے برسوں لگ جائیں گے اور کچھ مدت تک ہم کو اپنے انتظام میں بھی سابق قوانین برقرار رکھنے پڑیں گے۔ کیا تاریخ اس بات پر شاہد نہیں ہے کہ خود نبی ؐ کو بھی عرب کے نظام زندگی میں پورا اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے نو دس سال لگے تھے؟ اس دوران میں خاتم النبیین ؐ  کی اپنی حکومت میں چند سال شراب نوشی ہوتی رہی، سودلیا اور دیا جاتا رہا، جاہلیت کا قانونِ میراث جاری رہا، پرانے قوانین نکاح و طلاق برقرار رہے، بیوعِ فاسدہ کی بہت سی صورتیں عمل میں آتی رہیں، اور اسلامی قوانین دیوانی و فوجداری بھی اول روز ہی بتمام و کمال نافذ نہیں ہوگئے۔ پس اگر حضرت یوسف ؑ کی حکومت میں ابتدائی آٹھ نو سال تک سابق مصری بادشاہت کے کچھ قوانین چلتے رہے ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے اور اس سے یہ دلیل کیسے نکل آتی ہے کہ خدا کا پیغمبر مصر میں خدا کے دین کو نہیں بلکہ بادشاہ کے دین کو جاری کرنے پر مامور تھا۔ رہی یہ بات کہ جب ملک میں دین الملک جاری تھا ہی تو آخر حضرت یوسف ؑ کی اپنی ذات کے لیے اس پر عمل کرنا کیوں شایانِ شان نہ تھا، تو یہ سوال بھی نبی ؐ کے طریقہ پر غور کرنے سے بآسانی حل ہوجاتا ہے۔ نبی ؐ کی حکومت کے ابتدائی دور میں جب تک قوانین اسلامی جاری نہ ہوئے تھے، لوگ پُرانے طریقے کے مچابق شراب پیتے رہے، مگر کیا حضور ؐ نے بھی پی؟  لوگ سود لیتے دیتے تھے، مگر کیا آپ ؐ نے بھی سودی لین دین کیا؟ لوگ متعہ کرتے رہے اور جمع بین الاختین کرتے رہے، مگر کیا حضور ؐ نے بھی ایسا کیا؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی اسلام کا عملی مجبوریوں کی بنا پر احکام اسلامی کے اجراء میں تدریج سے کام لینا اور چیز ہے اور اس کا خود اس تدریج کے دور میں جاہلیت کے طریقوں پر عمل کرنا اور چیز۔  تدریج کی رخصتیں دوسروں کے لیے ہیں۔ داعی کا اپنا یہ کام نہیں ہے کہ خود ان طریقوں میں سے کسی پر عمل کرے جن کے مٹانے پر وہ مامور ہُوا ہے۔