یعنی یہ بات حضرت یوسف ؑ کی شان پیغمبری کے شایاں نہ تھی کہ وہ اپنے ایک ذاتی معاملہ میں شاہ مصر کے قانون پر عمل کرتے۔ اپنے بھائی کو روک رکھنے کے لیے انہوں نے خود جو تدبیر کی تھی اس میں خلل رہ گیا تھا کہ بھائی کو روکا تو ضرور جاسکتا تھا مگر شاہ مصر کے قانونِ تعزیرات سے کام لینا پڑتا، اور یہ اس پیغمبر کی شان کے مطابق نہ تھا جس نے اختیاراتِ حکومت غیر اسلامی قوانین کی جگہ اسلامی شریعت نافذ کرنے کے لیے اپنے ہاتھ میں لیے تھے۔ اگر اللہ چاہتا تو اپنے نبی کو اس بدنما غلطی میں مبتلا ہوجانے دیتا، مگر اس نے یہ گوارا نہ کیا کہ یہ دھبہ اس کے دامن پر رہ جائے، اس لیے اس نے براہ راست اپنی تدبیر سے یہ راہ نکال دی کہ اتفاقاً برادران یوسف ؑ سے چور کی سزا پوچھ لی گئی اور انہوں نے اس کے لیے شریعتِ ابراہیمی کا قانون بیان کردیا۔ یہ چیز اس لحاظ سے بالکل برمحل تھی کہ برادران یوسف ؑ مصری رعایا نہ تھے، ایک آزاد علاقے سے آئے ہوئے لوگ تھے، لہٰذا اگر وہ خود اپنے ہاں کے دستور کے مطابق اپنے آدمی کو اُس شخص کی غلامی میں دینے کے لیے تیار تھے جس کا مال اس نے چرایا تھا، تو پھر مصری قانونِ تعزیرات سے اس معاملہ میں مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہی وہ چیز ہے جس کو بعد کی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان اور اپنی علمی برتری سے تعبیر فرمایا ہے۔ ایک بندے کے لیے اس سے بڑھ کر بلندیِ درجہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ اگر وہ کبھی بشری کمزوری کی بنا پر خود کسی لغزش میں مبتلا ہو رہا ہو تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کو بچانے کا انتظام فرمادے۔ ایسا بلند مرتبہ صرف انہی لوگوں کو ملا کرتا ہے جو اپنی سعی و عمل سے بڑی بڑی آزمائشوں میں اپنا ”محسن“ ہونا ثابت کرچکے ہوتے ہیں۔ اور اگر چہ حضرت یوسف ؑ صاحبِ علم تھے، خود بہت دانشمندی کے ساتھ کام کرتے تھے، مگر پھر بھی اس موقع پر ان کے علم میں ایک کسر رہ ہی گئی اور اُسے اس ہستی نے پورا کیا جو ہر صاحب علم سے بالاتر ہے۔ |