اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر٦۳

احتیاط ملاحظہ ہو کہ ”چور“ نہیں کہتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ ”جس کے پاس ہم نے اپنا مال  پایا ہے“ اسی کو اصطلاح شرع میں ”توریہ“ کہتے ہیں، یعنی”حقیقت پر پردہ ڈالنا“ یا ” امر واقعہ کو چھپانا“۔ جب کسی مظلو م کو ظالم سے بچانے  یا کسی بڑے مظلمہ کو دفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ ہو کہ کچھ خلاف واقعہ بات کہی جائے یا کوئی خلاف حقیقت حیلہ کیا جائے ، تو ایسی صورت میں  ایک پرہیز گار آدمی صریح جھوٹ بولنے سے احتراز کرتے ہوئے ایسی بات کہنے یا ایسی تدبیر کرنے کی کوشش کرے گا جس سے حقیقت کو چھپا  کر بدی کو دفع کیا جا سکے۔ ایسا کرنا شرع و اخلاق میں جائز ہے ، بشرطیکہ محض کام نکالنے کے لیے ایسا نہ کیا جائے بلکہ کسی بڑی برائی کو دُور کرنا ہو۔ اب دیکھیے کہ اس سارے معاملہ میں حضرت یوسفؑ نے کس طرح جائز تو  ریہ کی شرائط پوری کی ہیں ۔ بھائی کی رضا مندی سے اس کے سامان میں پیالہ رکھ دیا مگر ملازموں سے یہ نہیں کہا کہ اس پر چوری کا الزام لگاؤ۔ پھر جب سرکاری ملازم چوری کے الزام  میں ان لوگوں کو پکڑ لائے تو خاموشی کے ساتھ اُٹھ کر تلاشی لے لی۔ پھر اب جو ان بھائیوں نے کہا کہ بن یمین  کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے تو اس کے جواب میں بھی بس اُنہی کی بات اُن پر الٹ دی کہ تمہارا اپنا فتویٰ یہ تھا کہ جس کے سامان میں سے تمہارا مال نکلے وہی رکھ لیا جائے ، سو اب تمہارے سامنے بن یمین کے سامان میں سے ہمارا مال نکلا ہے اور اسی کو ہم رکھے لیتے ہیں، دوسرے کو اس کی جگہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اس قسم کے  توریہ کی مثالیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں بھی ملتی ہیں ، اور کسی دلیل سے بھی اس کو اخلاقًا معیوب نہیں کہا جا سکتا۔