اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۷

بائیبل اور تَلمود کا بیان قرآن کے اس بیان سے مختلف ہے۔ ان کا بیان یہ ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے خواب سُن کر بیٹے کو خوب ڈانٹا اور کہا، اچھا اب تو یہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ میں اور تیری ماں اور تیرے سب بھائی تجھے سجدہ کریں گے۔  لیکن ذرا غور کرنے سے بآسانی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ حضرت یعقوب ؑ کی پیغمبرانہ سیرت سے قرآن کا بیان زیادہ مناسبت رکھتا ہے نہ کہ بائیبل اور تَلمود کا۔ حضرت یوسف ؑ نے خواب بیان کیا تھا، کوئی اپنی تمنّا اور خواہش نہیں بیان کی تھی خواب اگر سچّا تھا، اور ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب ؑ  نے جو اس کی تعبیر نکالی وہ سچا خواب ہی سمجھ کر نکالی تھی، تو اس کے صاف معنی یہ تھے کہ یہ یوسف ؑ کی خواہش نہیں تھی بلکہ تقدیرِ الٰہی کا فیصلہ تھا کہ ایک وقت ان کو یہ عروج حاصل ہو۔ پھر کیا ایک پیغمبر تو درکنار ایک معقول آدمی کا بھی یہ کام ہوسکتا ہے کہ ایسی بات پر بُرا مانے اور خواب دیکھنے والے کو اُلٹی ڈانٹ پلائے؟ اور کیا کوئی شریف باپ ایسا بھی ہوسکتا  ہے جو اپنے ہی بیٹے کے آئندہ عروج کی بشارت سن کر خوش ہونے کے بجائےاُلٹا جل بُھن جائے؟