اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۷۰

اس لفظ ”سجدہ“سے بکثرت لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ حتٰی کہ ایک گروہ نے تو اسی سےاستدلال کرکے بادشاہوں اور پیروں کے لیے سجدہٴ تحیتہ اور سجدہٴ تعظیمی کا جواز نکال لیا۔ دوسرے لوگوں کو اس قباحت سے بچنے کے لیے اس کی یہ توجیہ کرنی پڑی کہ اگلی شریعتوں میں صرف سجدہٴ عبادت غیر اللہ کے لیے حرام تھا، باقی رہا وہ سجدہ جو عبادت کے جزبہ سے خالی ہو تو وہ خدا کے سوا دوسروں کو بھی کیا جاسکتا تھا، البتہ شریعت محمدی ؐ میں ہر قسم کا سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام کردیا گیا۔ لیکن ساری غلچ فہمیاں دراصل اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ لفظ ”سجدہ“کو موجودہ اسلامی اصطلاح کا ہم معنی  سمجھ لیا گیا، یعنی ہاتھ، گھٹنے اور پیشانی زمین پر ٹکانا۔ حالانکہ سجدہ کے اصل معنی محض جھکنے کے ہیں اور یہاں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہُوا ہے۔ قدیم تہزیب میں یہ عام طریقہ تھا(اور آج بھی بعض ملکوں میں اس کا رواج ہے)کہ کسی کاشکریہ ادا کرنے کے لیے، یا کسی کا استقبال کرنے کے لیے، یا محض سلام کرنے کے لیے سینے پر ہاتھ رکھ کر کسی حد تک آگے کی طرف جھکتے تھے۔ اسی جھکاوٴ کے لیے عربی میں سجود اور انگریزی میں (Bow ) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ بائیبل میں اس کی بکثرت مثالیں ہم کو ملتی ہیں کہ قدیم زمانے میں یہ طریقہ آدابِ تہزیب میں شامل تھا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے خیمہ کی طرف تین آدمیوں کو آتے دیکھا تو وہ ان کے استقبال کے لیے دوڑے اور زمین تک جھکے۔ عربی بائیبل میں اس موقع پر جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: فلما نظر رکض لا ستقبالہم من باب الخیمة و سجد الی الارض(تکوین:١۸ - ۳)۔ پھر جس موقع پر یہ ذکر آتا ہے کہ بنی حِتّ نے حضرت سارہ کے دفن کے لیے قبر کی زمین مفت دی وہاں اُردو بائیبل کے الفاظ یہ ہیں”ابرھام نے اُٹھ کر اور بنی حِتّ کے آگے، جو اس ملک کے لوگ ہیں،آداب بجالاکر ان سے یوں گفتگو کی“۔ اور جب ان لوگوں نے قبر کی زمین ہی نہیں بلکہ ایک پورا کھیت اور ایک غار نذر میں پیش کردیا تب”ابرھام اس ملک کے لوگوں کے سامنے جھکا“۔مگر عربی ترجمہ میں ان دونوں مواقع پر آداب بجالانے اور جھکنے کے لیے”سجدہ کرنے“ ہہی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں: فقام ابراھیم و سجد لشعب الارض لبنی حِت (تکوین:۲۳:۷)۔ فسجد ابراھیم امام شعب الارض(۲۳:١۲)۔ انگریزی بائیبل میں ان مواقع پر جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں
Bowed himself toward the ground.
Bowed himself to the people of the land and Abraham bowed down himself before the people of the land.
اس مضمون کی مثالیں بڑی کثرت سے بائیبل میں ملتی ہیں اور ان سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سجدے کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں جواب اسلامی اصطلاح کے لفظ ”سجدہ“سے سمجھا جاتا ہے۔
جن لوگوں نے معاملہ کی اس حقیقت کے جانے بغیر اس کی تاویل میں سرسری طور پر یہ لکھ دیا ہے کہ اگلی شریعتوں میں غیر اللہ کو تعظیمی سجدہ کرنا یا سجدہٴ تحیتہ بجالانا جائز تھا انہوں نے محض ایک بے اصل بات کہی ہے۔ اگر سجدے سے مراد وہ چیز ہو جسے اسلامی اصطلاح میں سجدہ کہا جاتا ہے، تووہ خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت میں کبھی کسی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں تہا ہے۔ بائیبل میں ذکر آتا ہے کہ بابل کی اسیری کے زمانے میں جب اخسویرس بادشاہ نے ہامان کو اپنا امیر الامرا بنایا اور حکم دیا کہ سب لوگ اس کو سجدہٴ تعظیمی بجالایا کریں تو مرد کی نے، جو بنی اسرائیل کے اولیاء میں سے تھے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا(آستر۳:١ - ۲)۔ تلمود میں اس واقعہ کی شرح کرتے ہوئے اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے:
”بادشاہ کے ملازموں نے کہا آخر تو کیوں ہامان کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے، ہم بھی آدمی ہیں مگر شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس نے جواب دیا تم لوگ نادان ہو۔ کیا ایک فانی انسان، جو کل خاک میں مل جانے والا ہے، اس قابل ہوسکتا ہے کہ اس کی بڑائی مانی جائے؟ کیا میں اُس کو سجدہ کروں جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہُوا، کل بچہ تھا، آج جوان ہے، کل بوڑھا ہوگا اور پرسوں مرجائے گا؟ نہیں، میں تو اس ازلی و ابدی خدا ہی کے آگے جھکوں گا جو حی و قیوم ہے ……….. وہ جو کائنات کا خالق اور حاکم ہے، میں تو بس اسی کی تعظیم بجا لاوٴں گا، اور کسی کی نہیں“۔
یہ تقریرنزول قرآن سے تقریباً ایک ہزار برس پہلے ایک اسرائیلی مومن کی زبان سے ادا ہوئی ہے اور اس میں کوئی شائبہ تک اِس تخیل کا نہیں پایا جاتا کہ غیر اللہ کو کسی معنی میں بھی ”سجدہ“ کرنا جائز ہے۔