اس رکوع کو چھاپیں

سورة یوسف حاشیہ نمبر۷١

یہ چند فقرے جو اس موقع پر حضرت یوسف ؑ کی زبان سے نکلے ہیں، ہمارے سامنے ایک سچے مومن کی سیرت کا عجیب دلکش نقشہ پیش کرتے ہیں۔ صحرائی گلہ بانوں کے خاندان کا ایک فرد، جس کو خود اس کے بھائیوں نے حسد کے مارے ہلاک کردینا چاہا تھا، زندگی کے نشیب و فراز دیکھتا ہُوا بالآخر دنیوی عروج کے انتہائی مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے قحط زدہ اہل خاندان اب اس کے دست نگر ہوکر اس کے حضور آئے ہیں اور وہ حاسد بھائی بھی، جو اس کو مار ڈالنا چاہتے تھے، اس کے تخت شاہی کے سامنے سرنگوں کھڑے ہیں۔ یہ موقع دنیا کے عام دستور کے مطابق فخر جتانے، ڈینگیں مارنے، گلے اور شکوے کرنے، اور طعن و ملامت کے تیر برسانے کا تھا۔ مگر ایک سچا خدا پرست انسان اس موقع پر کچھ دوسرے ہی اخلاق ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے اس عروج پر فخر کرنے کے بجائے اس خدا کے احسان کا اعتراف کرتا ہے جس نے اسے یہ مرتبہ عطا کیا۔ وہ خاندان والوں کو اُس ظلم و ستم پر کوئی ملامت نہیں کرتا جو اوائل  عمر میں انہوں نے اس پر کیے تھے۔ اس کے برعکس وہ اس بات پر شکر ادا کرتا ہے کہ خدانے اتنے دنوں کی جدائی کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے ملایا۔ وہ حاسد بھائیوں کے خلاف شکایت کا ایک لفظ زبان سے نہیں نکالتا۔ حتٰی کہ یہ بھی نہیں کہتا کہ انہوں نے میرے ساتھ برائی کی تھی۔بلکہ ان کی صفائی خود ہی اس طرح پیش کرتا ہے کہ شیطان نے میرے اور ان کے درمیان برائی ڈال دی تھی۔ اور پھر اس برائی کے بھی بہت پہلو چھوڑ کر اس کا یہ اچھا پہلو پیش کرتا ہے کہ خدا جس مرتبے پر مجھے پہنچانا چاہتا تھا اس کے لیے یہ لطیف تدبیر اُس نے فرمائی۔ یعنی بھائیوں سے شیطان نے جو کچھ کرایا اسی میں حکمت الٰہی کے مچابق میرے لیے خیر تھی۔ چند الفاظ میں یہ سب کچھ کہہ جانے کے بعد وہ بے اختیار اپنے خدا کے آگے جھک جاتا ہے، اس کا شکر ادا کرتا ہے کہ تو نے مجھے بادشاہی دی اور وہ قابلیتیں بخشیں جن کی بدولت میں قید خانے میں سڑنے کے بجائے آج دنیا کی سب سے بڑی سلطنت پر فرماں روائی کررہا ہوں۔ اور آخر میں خدا سے کچھ مانگتا ہے تو یہ کہ دنیا میں جب تک زندہ رہوں تیری بندگی و غلامی پر ثابت قدم رہوں، اور جب اس دنیا سے رخصت ہوں تو مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملادیا جائے۔ کس قدر بلند اور کتنا پاکیزہ ہے یہ نمونہٴ سیرت !
حضرت یوسف ؑ کی اس قیمتی تقریر نے بھی بائیبل اور تلمود میں کوئی جگہ نہیں پائی ہے۔ حیرت ہے کہ یہ کتابیں قصوں کی غیر ضروری تفصیلات سے تو بھری پڑی ہیں، مگر جو چیزیں کوئی اخلاقی قدروقیمت رکھتی ہیں اور جن سے انبیاء کی اصلی تعلیم اور ان کے حقیقی مشن اور ان کی سیرتوں کے سبق آموز پہلووٴں پر روشنی پڑتی ہے، ان سے ان کتابوں کا دامن خالی ہے۔
یہاں یہ قصہ ختم ہورہا ہے اس لیے ناظرین کو پھر اس حقیقت پر متنبہ کردینا ضروری ہے کہ قصہٴ یوسف ؑ کے متعلق قرآن کی یہ روایت اپنی جگہ ایک مستقل روایت ہے، بائیبل یا تلمود کا چربہ نہیںہے۔ تینوں کتابوں کا متقابل مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قصے کے متعدد اہم اجزاء میں قرآن کی روایت ان دونوں سے مختلف ہے۔ بعض چیزیں قرآن ان سے زائد  بیان کرتا ہے، بعض ان سے کم، اور بعض میں ان کی تردید کرتا ہے۔ لہٰذا کسی کے لیے یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے جو قصہ سنایا وہ بنی اسرائیل سے سن لیا ہوگا۔