اس رکوع کو چھاپیں

سورة الرعد حاشیہ نمبر۲٦

واضح رہے کہ وہ لوگ خود اس بات کے قائل تھے  کہ زمین و آسمان کا رب اللہ ہے ۔ وہ اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں نہیں دے سکتے تھے ، کیونکہ یہ انکار  خود اُن کے اپنے عقیدے کے خلا ف تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر وہ اقرار کی صورت میں بھی اس جواب دینے سے کتراتے تھے، کیونکہ اقرار کے بعد توحید کا ماننا لازم آجاتا تھا اور شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد با قی نہیں رہتی تھی۔ اس لیے اپنے موقف کی کمزوری محسوس کر کے وہ اس سوال کے جواب میں چپ سادھ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے  کہ ان سے پوچھو زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ کائنات کا ربّ کون ہے؟ تم کو رزق دینے والا کون ہے؟ پھر حکم دیتا ہے کہ تم خود کہو کہ اللہ ، اور اِس کے بعد یوں  استدلال کرتا ہے کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو آخر یہ دوسرے کون ہیں جن کی تم بندگی کیے جا رہے ہو؟