اس رکوع کو چھاپیں

سورة الرعد حاشیہ نمبر۳۴

بُری حساب فہمی یا سخت حساب فہمی سے مطلب یہ ہے کہ آدمی کی کسی خطا اور کسی لغزش کو معاف نہ کیا جائے ، کوئی قصور جو اس نے کیا ہو مؤاخذے کے بغیر نہ چھوڑا جائے۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کا محاسبہ اپنے اُن بندوں سے کرے گا  جو اُس کے باغی بن کر دنیا میں رہے ہیں۔ بخلاف اس کے جنہوں نے اپنے خدا سے وفاداری کی ہے اور اس کی مطیع فرمان بن کر رہے ہیں ان سے ”حسابِ یسیر“ یعنی ہلکا حساب لیا جائے گا، اُ ن کی خدمات کے مقابلے میں ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور  اُن کے مجموعی طرزِ عمل کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر  اُن کی بہت سی کوتاہیوں سے صرفِ نظر کر لیا جائے گا۔ اس کی مزید توضیح اُس حدیث سے ہوتی ہے  جو حضرت عائشہ ؓ سے ابوداؤد میں مروی ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ!  میرے نزدی کتاب اللہ سب سے زیادہ  خوفناک آیت وہ  ہے جس میں ارشاد ہو ا ہے کہ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓ ءً یُّجْزَ بِہٖ۔ ”جو شخص کوئی برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا“۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا، عائشہ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کی مطیع فرمان بندے کو دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے ، حتیٰ کہ اگر کوئی کانٹا بھی اُس کو چبھتا ہے ، تو اللہ اُسے اُس کے کسی نہ کسی قصور کی سزا قرار دے کر دنیا  ہی میں اس کا حساب صاف کر دیتا ہے؟ آخرت میں  تو جس سے بھی محاسبہ ہو گا وہ سزا پا کر رہے گا۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا ، پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا  مطلب کیا ہے کہ فَاَمَّا مَنْ اُوْ تِیَ کِتَابَہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَسَوْ فَ یُحَا سَبُ  حِسَابًا یَّسِیْرًا؟ ”جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ  میں دیا جائے گا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا“۔ حضورؐ نے جواب دیا ،  ا س سے مراد ہے پیشی(یعنی اس کی بھلائیوں کے ساتھ اُس کی برائیاں بھی اللہ تعالیٰ  کے سامنے  ضرر پیش ہوں گی) مگر  جس سے باز پرس  ہوئی تو  وہ بس سمجھ لو کہ مارا گیا۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص  اپنے وفادار اور فرمانبردار ملازم کو چھوٹی چھوٹی خطاؤں پر کبھی سخت گرفت نہیں کرتا بلکہ اس کے بڑے بڑے قصوروں کو بھی اس کی خدمات  کے پیشِ نظر معاف کر دیتا ہے ۔ لیکن اگر کسی ملازم کی غداری و خیانت ثابت ہو جائے تو اس کی کوئی خدمت قابل لحاظ نہیں رہتی اور اس کے چھوٹے بڑے سب قصور شمار میں آجاتے ہیں۔