اس رکوع کو چھاپیں

سورة الرعد حاشیہ نمبر۴

یہاں یہ امر ملحوظ ِ خاطر رہنا چاہیے کہ مخاطب وہ قوم ہے جو اللہ کی ہستی کی منکر نہ تھی، نہ اس کے خالق ہونے کی منکر تھی ، اور نہ یہ گمان رکھتی تھی کہ یہ سارے کام جو یہاں بیان کیے جارہے ہیں  ، اللہ کے سوا کسی  ا ورکے ہیں۔ اس لیے بجائے خود اس بات پر دلیل لانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی کہ واقعی اللہ ہی نے آسمانوں کو قائم کیا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے ۔ بلیکہ ان واقعات کو ، جنہیں مخاطب خود ہی مانتے تھے، ایک دوسری  بات  پر دلیل قرار دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا اس نظامِ  کائنات میں صاحبِ اقتدار نہیں ہے جو معبود قرار دیے جانےکا مستحق ہو۔ رہا یہ سوال کہ جو شخص سرے سے اللہ کی ہستی کا ور اس کے خالق و مدبر ہونے ہی کا قائل نہ ہو اسکے مقابلے میں یہ استدلال کیسے مفید ہوسکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کے مقابلے میں  توحید کو ثابت کرنے کے  لیے جو دلائل دیتا ہے وہی دلائل ملاحدہ کے مقابلے میں  وجود ِ باری  کے اثبات کے لیے بھی کافی ہیں۔ توحید کا سارا استدلال اس بنیاد پر قائم ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری کائنات ایک مکمل نظام ہے اور یہ پورا نظام ایک زبردست قانون کے تحت چل رہا ہے جس میں ہر طرف ایک ہمہ گیر  اقتدار  ، ایک بے عیب حکمت، اور بے خطا علم کے آثار نظر آتے ہیں۔ یہ آثار جس طرح اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ  اس نظام کے بہت سے فرمانروا  نہیں ہیں، اسی طرح اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں  کہ اس نظام کا ایک فرمانروا ہے۔ نظم کا تصور ایک ناظم کے بغیر ، قانون کا تصور ایک حکمران کے بغیر ، حکمت کا تصور ایک حکیم کے بغیر،  علم کا تصور ایک عالم کے بغیر، اور سب سے بڑھ کر یہ  کہ خلق کا تصور ایک خالق کے بغیر صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ہٹ دھرم ہو، یا پھر وہ جس کی عقل ماری گئی ہو۔