اس رکوع کو چھاپیں

سورة ابرھیم حاشیہ نمبر۳۸

دوسرے الفاظ میں اِ س کا مطلب یہ ہوا کہ عقیدہ باطل چونکہ حقیقت کے خلاف ہے اس  لیے قانونِ فطرت کہیں بھی اُس سے موافقت نہیں کرتا۔ کائنات کا ہر ذرہ اُس کی تکذیب کرتا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر شے اس کی تردید کرتی ہے۔ زمین میں اُس کا بیج بونے کی کوشش کی جائے تو ہر وقت وہ اُسے اگلنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ آسمان کی طرف اس کی شاخیں بڑھنا چاہیں تو وہ انہیں نیچے دھکیلتا ہے۔ انسان کو اگر امتحان کی خاطر انتخاب کی  آزادی اور عمل کی مہلت  نہ دی گئی ہوتی تو یہ بدذات  درخت کہیں اُگنے ہی نہ پاتا۔  مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے ابنِ آدم کو اپنے رحجان کے مطابق کام کرنے  کا موقع عطا کیا ہے، اس لیے جو نادان لوگ قانونِ فطرت سے لڑ بھڑ کر یہ درخت لگانے کی کوشش کرتے ہیں ، اُن کے زور مارنے سے زمین اُسے تھوڑی بہت جگہ دے دیتی ہے ، ہوا  اور پانی  سے کچھ نہ کچھ غذا بھِ اسے مل جاتی ہے، اور فضا بھِ اس کی شاخوں کے پھیلنے کے لیے بادلِ ناخواستہ کچھ موقع دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ لیکن جب تک یہ درخت قائم رہتا ہے کڑوے ، کسیلے، زہریلے پھل دیتا رہتا ہے، اور حالات کے بدلتے ہی حوادث کا ایک جھٹکا اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔
کلمہ طیبہ اور کلمات خبیثہ کے اس فرق کو ہر وہ شخص بآسانی محسوس کر سکتا ہے جو دنیا کی  مذہبی ، اخلاقی، فکری اور تمدنی تاریخ کا مطالعہ کرے۔ وہ دیکھے  گا کہ آغازِ تاریخ سے آج تک  کلمہ طیبہ تو ایک ہی رہا ہے، مگر کلماتِ خبیثہ بے شمار پیدا ہو چکے ہیں۔ کلمہ طیبہ کبھی جڑ سے نہ اکھاڑا جا سکا، مگر کلماتِ خبیثہ  کی فہرست ہزاروں مردہ کلمات کے ناموں سے بھری پڑی ہے ، حتیِ کہ اُن میں سے بہتوں کا حال یہ ہے کہ آج تاریخ کے صفحات کے سوا کہیں اُن کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا۔ اپنے زمانے میں جن کلمات کا بڑا زور شور رہا ہے آج اُن کا ذکر  کیا جائے تو لوگ حیران رہ جائیں کہ کبھی انسان ایسی ایسی حماقتوں کا بھی قائل رہ چکا ہے۔
پھر کلمہ طیبہ کو جب، جہاں ،جس شخص یا قوم نے بھی صحیح معنوں میں اپنایا اُس کی خوشبو سے اُس کا ماحول معطر ہو گیا اور اُس کی برکتوں سے صرف اُسی شخص یا قوم نے فائدہ نہیں اُٹھایا ، بلکہ اُس کے گردوپیش کی دنیا بھی اُن سے مالامال ہوگئی۔ مگر کسی کلمہ خبیث نے  جہاں جس انفرادی یا اجتماعی زندگی میں بھی جڑ پکڑی اُس کی سڑاند سے سارا ماحول متعفن ہو گیا۔ اور اُس کے کانٹوں کی چبھن سے نہ اس کا ماننے والا امن میں رہا ، نہ کوئی ایسا شخص جس کو اُس سے سابقہ پیش آیا ہو۔
اس سلسلہ میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں تمثیل کے پیرایہ میں اُسی مضمون کو سمجھایا گیا ہے  جو آیت ۱۸ میں یوں بیان ہوا تھا کہ ”اپنے ربّ سے کفر کرنے والوں کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اُڑا دیا ہو“۔  اور یہی مضمون اِس سے پہلے سورۂ رعد آیت ۱۷ میں ایک دوسرے انداز  سیلاب اور پگھلائی ہوئی دھاتوں کی تمثیل میں بیان ہوچکا ہے۔