دوسرے الفاظ میں اِ س کا مطلب یہ ہوا کہ عقیدہ باطل چونکہ حقیقت کے خلاف ہے اس لیے قانونِ فطرت کہیں بھی اُس سے موافقت نہیں کرتا۔ کائنات کا ہر ذرہ اُس کی تکذیب کرتا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر شے اس کی تردید کرتی ہے۔ زمین میں اُس کا بیج بونے کی کوشش کی جائے تو ہر وقت وہ اُسے اگلنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ آسمان کی طرف اس کی شاخیں بڑھنا چاہیں تو وہ انہیں نیچے دھکیلتا ہے۔ انسان کو اگر امتحان کی خاطر انتخاب کی آزادی اور عمل کی مہلت نہ دی گئی ہوتی تو یہ بدذات درخت کہیں اُگنے ہی نہ پاتا۔ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے ابنِ آدم کو اپنے رحجان کے مطابق کام کرنے کا موقع عطا کیا ہے، اس لیے جو نادان لوگ قانونِ فطرت سے لڑ بھڑ کر یہ درخت لگانے کی کوشش کرتے ہیں ، اُن کے زور مارنے سے زمین اُسے تھوڑی بہت جگہ دے دیتی ہے ، ہوا اور پانی سے کچھ نہ کچھ غذا بھِ اسے مل جاتی ہے، اور فضا بھِ اس کی شاخوں کے پھیلنے کے لیے بادلِ ناخواستہ کچھ موقع دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ لیکن جب تک یہ درخت قائم رہتا ہے کڑوے ، کسیلے، زہریلے پھل دیتا رہتا ہے، اور حالات کے بدلتے ہی حوادث کا ایک جھٹکا اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ |