اس رکوع کو چھاپیں

سورة ابرھیم حاشیہ نمبر۵

اس کے دومطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو نبی  جس قوم میں بھیجا ہے اُس پر اُسی قوم کی زبان میں اپنا کلام نازل کیا  تا کہ وہ قوم اسے اچھی طرح سمجھے ، اور اسے یہ عذر  پیش کرنے کا موقع نہ مل سکے کہ آپ کی بھیجی ہوئی تعلیم تو ہماری سمجھ  ہی میں  نہ آتی تھی  پھر  ہم اس پر ایمان کیسے لاتے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض معجزہ  دکھا نے کی خاطر کبھی  یہ نہیں کیا کہ رسول تو بھیجے عرب میں اور وہ کلام سنائے  چینی  یا جاپانی زبان میں۔ اس طرح کے کرشمے دکھانے اور لوگوں  کی عجائب پسندی کو آسودہ کرنے کی بہ نسبت  اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تعلیم و تلقین اور تفہیم و تبیین کی اہمیت  زیادہ رہی ہے   جس کے لیے ضروری تھا کہ ایک قوم کو اسی زبان میں پیغام پہنچایا جائے جسے وہ سمجھتی ہو۔