اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحجر حاشیہ نمبر ۱۹

اس سے معلو م ہوا کہ  انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفاتِ الہٰی کا ایک عکس یا پر تَو ہے ۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں ، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتَو ہے جو اس کا لبدِ خاکی پر ڈالا گیا ہے ، اور اسی پر تَو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کی خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ِ ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔
یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے، اس کا مصدر و منبع  اللہ تعالیٰ  ہی کو کوئی نہ کوئی صفت ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جَعَلَ اللہ ْ الرَّ حْمَۃَ مِأَ ۃَ جُزْءٍ فَاَمْسَکَ عِنْدَہٗ تِسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ وَاَنْزَلَ فِی الْاَرْضِ جُزْ ءً ا وَّ احِدًا فَمِنْ ذٰلِکَ الْجُزْ ءِ یَتَرَ ا حَمُ الْخَلَا ئِقُ حَتّٰی تَرْفَعُ الدَّآ بَّۃُ حَا فِرَ ھَا  عَنْ وَّلَدِھَا خَشْیَۃِ اَنْ تُصِیْبَہٗ (بخاری و مسلم)۔ ” اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا ، پھر ان میں سے ۹۹ حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حِصّہ زمین میں اُتارا۔ یہ اُسی ایک حصے کی برکت ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر جانور اپنے بچے پر سے اپنا کُھرا اُٹھاتا ہے تاکہ اُسے ضرر نہ پہنچ جائے، تو یہ بھی دراصل اُسی حصہ رحمت کا اثر ہے“۔ مگر جو چیز انسان کی دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پر تَو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی۔
یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی  بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ صفاتِ الہٰی میں سے ایک حصّہ پانا الوہیت کا کوئی جُز پالینے کا ہم معنی ہے ۔ حالانکہ الوہیت اس دے دراء الوراء ہے  کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے۔