اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحجر حاشیہ نمبر۲۵

“اس جگہ یہ قصہ جس غرض کے لیے بیان کیا گیا ہے اسے سمجھنے کے یلے ضروری ہے کہ  سیاق و سباق  کو واضح طور پر ذہن میں رکھا جائے ۔ پہلے اور دوسرے رکوع کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات صاف سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں آدم و ابلیس کا یہ قصہ بیا ن کرنے سے مقصود کفار کو اِس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ تم اپنے ازلی دشمن شیطان کے پھندے میں پھنس گئے ہو اور اُس پستی میں گرے چلے جا رہے ہو جس میں  وہ اپنے  حسد کی بنا پر تمہیں گرانا چاہتا ہے۔ اِس کے برعکس یہ نبی تمہیں اُس کے پھندے سے نکال کر اُس بلندی کی طرف لے جانے کی کوشش کررہا ہے جو دراصل انسان ہونے کی حیثیت سے تمہارا فطری مقام ہے۔ لیکن تم عجیب احمق لوگ ہو کہ اپنے دشمن کو دوست ، اور اپنے خیر خواہ کو دشمن سمجھ رہے ہو۔
اِس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اِسی قصہ  سے اُن پر واضح کی گئی ہے کہ تمہارے لیے راہِ نجات صرف ایک ہی ہے، اور وہ اللہ کی بندگی ہے ۔ اِس راہ کو چھوڑ کر تم جس راہ پر بھی جاؤ گے وہ شیطان کی راہ ہے  جو سیدھی جہنم کی طرف جاتی ہے۔
تیسری بات جو اِس قصے کے ذریعہ سے ان کو سمجھائی گئی ہے ، یہ ہے کہ اپنی اس غلطی کے ذمہ دار تم خود ہو۔ شیطان کا کوئی کام اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ ظاہر حیات دنیا سے تم کو دھوکا دے کر تمہیں بندگی کی راہ سے منحرف کر نے کی کوشش کرتا ہے ، اُس سے دھوکا کھانا تمہارا اپنا فعل ہے جس کی کوئی ذمہ داری تمہارے اپنے سوا کسی اور پر نہیں ہے۔
(اس کی مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم ، آیت ۲۲ و حاشیہ نمبر ۳۱