“اس جگہ یہ قصہ جس غرض کے لیے بیان کیا گیا ہے اسے سمجھنے کے یلے ضروری ہے کہ سیاق و سباق کو واضح طور پر ذہن میں رکھا جائے ۔ پہلے اور دوسرے رکوع کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات صاف سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں آدم و ابلیس کا یہ قصہ بیا ن کرنے سے مقصود کفار کو اِس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ تم اپنے ازلی دشمن شیطان کے پھندے میں پھنس گئے ہو اور اُس پستی میں گرے چلے جا رہے ہو جس میں وہ اپنے حسد کی بنا پر تمہیں گرانا چاہتا ہے۔ اِس کے برعکس یہ نبی تمہیں اُس کے پھندے سے نکال کر اُس بلندی کی طرف لے جانے کی کوشش کررہا ہے جو دراصل انسان ہونے کی حیثیت سے تمہارا فطری مقام ہے۔ لیکن تم عجیب احمق لوگ ہو کہ اپنے دشمن کو دوست ، اور اپنے خیر خواہ کو دشمن سمجھ رہے ہو۔ |