اس کی تشریح سورۂ ہود کے حاشیہ نمبر ۸۷ میں بیان کی جا چکی ہے۔ یہاں صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ یہ کلمات ایک شریف آدمی کی زبان پر ایسے وقت میں آئے ہیں جب کہ وہ بالکل تنگ آچکا تھا اور بدمعاش لوگ اس کی ساری فریاد فغاں سے بے پروا ہو کر اُس کے مہمانوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ |