اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحجر حاشیہ نمبر۵۰

یہ بات بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آ پ کے ساتھیوں کی تسکین و تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے۔ وقت وہ تھا جب حضور ؐ اور آپ کے ساتھی سب کے سب انتہائی خستہ حالی میں مبتلا تھے۔ کارِ نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالتے ہی حضورؐ کی تجارت قریب قریب ختم ہو چکی تھی اور حضرت خدیجہ ؓ کا سرمایہ بھی دس بارہ سال کے عرصے میں خرچ ہو  چکا تھا۔ مسلمانوں میں سے بعض کم سن نوجوان تھے جو گھروں سے نکال دیے گئے تھے ، بعض صنعت پیشہ یا تجارت پیشہ تھے جن کے کاروبار  معاشی مقاطعہ کی مسلسل ضرب سے بالکل بیٹھ گئے تھے ، اور بعض بیچارے پہلے ہی غلام یا موالی تھے جن کی کوئی معاشی حیثیت نہ تھی۔ اس پر مزید یہ ہے کہ حضورؐ سمیت تمام مسلمان مکّے اور اطراف و نواح کی بستیوں میں انتہائی مظلومی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہر طرف سے مطعون  تھے، ہر جگہ تذلیل و تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنے ہوئے تھے ، اور قلبی و روحانی تکلیفوں کے ساتھ جسمانی اذیّتوں سے بھی کوئی بچا ہو ا نہ تھا۔ دوسری طرف سردارنِ   قریش دنیا کی نعمتوں  سے مالا  مال اور ہر طرح  کی خوشحالیوں میں مگن تھے۔ ان حالات میں فرمایا جا رہا ہے کہ تم شکستہ خاطر کیوں ہوتے ہو، تم کو تو ہم نے وہ دولت عطا کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں۔ رشک  کے لائق تمہاری یہ علم ی و اخلاقی دولت ہے نہ کہ اُن لوگوں کی مادّی دولت جو طرح طرح کے حرام طریقوں سے کما رہے ہیں اور طرح طر ح کے حرام راستوں میں اس کمائی کو اُڑا رہے ہیں اور آخر کار بالکل مفلس و قلاش ہو کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے والے ہیں۔