اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر١۰

یعنی اگرچہ یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اِس ذمہ داری کو (جو نوع انسان کی رہنمائی کے لیے اس نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے) اس طرح ادا کرتا  کہ سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر دوسری تمام بے اختیار مخلوقات کے مانند بر سر ہدایت بنا دیتا۔ لیکن یہ اس کی مشیت  کا تقاضا نہ تھا۔ اُس کی مشیت ایک ایسی ذی اختیار مخلوق کو وجود میں لانے کی متقاضی تھی جو اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے صحیح اور غلط ، ہر طرح کے راستوں پر جانے کی آزادی رکھتی ہو۔ اسی آزادی کے استعمال کے لیے اس کو علم کے ذرائع دیے گئے، عقل و فکر کی صلاحیتیں دی گئیں، خواہش اور ارادے کی طاقتیں بخشی گئیں، اپنے اندر اور باہر کی بے شمار چیزوں پر تصرف کے اختیارات عطا کیے گئے، اور باطن و ظاہر میں ہر طرف بے شمار ایسے اسباب رکھ دیے گئے  جو اس کے لیے ہدایت اور ضلالت ، دونوں کے موجب بن سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ بے معنی ہو جاتا اگر وہ پیدائشی طور پر راست رو بنا دیا جاتا ۔ اور ترقی کے اُن بلند مدارج تک بھی انسان کا پہنچنا ممکن نہ رہتا جو صرف آزادی کے صحیح استعمال ہی کے نتیجے میں اس کو مل سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جبری ہدایت کا طریقہ چھوڑ کر رسالت کا طریقہ اختیار  فرمایا کرتا کہ انسان کی آزادی بھی برقرار رہے، اور اس کے امتحان کا منشا بھی پورا ہو، اور راہِ راست بھی معقول ترین طریقہ سے اس کے سامنے پیش کر دی جائے۔