اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر١۰۷

روایات میں مختلف اشخاص کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ  کفارِ مکہ اُن میں سے کسی پر یہ گمان کرتے تھے۔ ایک روایت میں اس کا نام جبر بیان کیا گیا ہے جو عامر بن الحَضرمی کا ایک رومی غلام تھا۔ دوسری روایت  میں حُوَیطِب بن عبد العُزّیٰ کے ایک غلام کا نام لیا گیا ہے جسے عائش یا یَعیش کہتے تھے۔ ایک اور روایت میں یَسار کا نام لیا گیا ہے جس کی کنیت ابُو فکَیہَہ تھِ اور جو مکّے کی ایک عورت کا یہودی غلام تھا۔ ایک اور روایت بَلعان یا بَلعام نامی ایک رومی غلام  سے متعلق ہے۔ بہرحال ان میں سے  جو بھی ہو، کفار مکہ نے محض یہ دیکھ کر کہ ایک شخص تو راۃ و انجیل پڑھتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے ملاقات ہے،  بے تکلف یہ الزام گھڑ دیا کہ اس قرآن کو دراصل وہ تصنیف کر رہا ہے  اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی طرف سے خدا کا نام  لے لے کر پیش کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ اندازہ ہوتا ہےکہ آنحضرت ؐ کے مخالفین آپ کے خلاف افتراپردازیاں کرنے میں کس قدر بے باک تھے، بلکہ یہ سبق بھی ملتا ہے کہ لوگ اپنے ہم عصروں کی قدر و قیمت  پہچاننے میں کتنے بے انصاف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے سامنے تاریخ انسانی کی ایک ایسی عظیم شخصیت تھی جس کی نظیر نہ اُس وقت دنیا بھر میں کہیں موجود تھی اور نہ آج تک  پائی گئی ہے۔ مگر ان عقل کے اندھوں کو اُس کے مقابلہ میں ایک عجمی غلام، جو کچھ توراۃ و انجیل پڑھ لیتا تھا، قابل تر نظر آرہا تھا اور وہ گمان کر رہےتھے کہ یہ گوہرِ نایاب اس کوئلے سے چمک حاصل   کر رہا ہے۔