اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر١۰۹

اس آیت میں اُن مسلمانوں کے معاملے  سے بحث کی گئی ہے جن پر اُس وقت سخت مظالم توڑے جارہے تھے اور ناقابلِ برداشت اذیتیں دے دے کر کفر پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ ان کو بتایا گیا ہے کہ اگر تم کسی وقت ظلم سے مجبور ہو کر محض جان بچانے کے لیے کلمہ ٔ کفر  زبان سے ادا کردو، اور دل تمہارا عقیدۂ کفر سے محفوظ ہو، تو معاف کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر دل سے تم نے کفر قبول کر لیا تو دنیا میں چاہے جان بچا لو، خدا کے عذاب سے نہ بچ سکو گے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جان بچانے کے لیے کلمہ ٔ کفر کہہ دینا چاہیے۔ بلکہ یہ صرف رخصت ہے۔ اگر ایمان دل میں رکھتے ہوئے آدمی مجبورًا ایسا کہہ دے تو مواخذہ نہ ہو گا۔  ورنہ مقامِ عزیمت یہی ہے کہ  خواہ آدمی کا جسم  تکا بوٹی کر ڈالا  جائے بہرحال وہ کلمہ ٔ حق ہی کا اعلان کرتا رہے۔ دونوں قسم کی نظیریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِ مبارک میں پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف خَبَّاب ؓ بن اَرت ہیں جن کو آگ  کے انگاروں پر لُٹایا گیا یہاں تک کہ ان کی چربی پگھلنے  سے آگ بجھ گئی، مگر وہ سختی کے ساتھ اپنے ایمان پر جمے رہے۔ بلالؓ حبشی ہیں جن کو لوگے کی زِرہ پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا، پھر تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر  گھسیٹا گیا مگر وہ احد احد ہی کہتے رہے۔ حبیب بن زیدؓ بن عاصم ہیں جن کے بدن کا ایک ایک عضو مُسیلمہ کذاب کے حکم  سےکاٹا جاتا تھا اور پھر مطالبہ کیا جاتا تھا کہ  مسیلمہ کو نبی مان لیں ، مگ ہر مرتبہ وہ  اس کے دعوائے رسالت کی شہادت دینے سے انکار  کرتے تھے یہاں تک کہ اسی حالت میں کٹ کٹ  کر انہوں نے جان دے دی۔ دوسری طرف عَمّار بن یاسرؓ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد اور ان کی والدہ کو سخت عذاب دے دے کر شہید کر دیا گیا، پھر ان کو اتنی  ناقابلِ برداشت اذیّت دی گئی کہ آخر انہوں نے جان بچانے کے لیے ہو سب کچھ  کہہ دیا جو کفار اُن سے کہلوانا چاہتے تھے۔ پھر وہ روتے روتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رَسُول َ اللہ   مَا تُرِکْتُ حَتّٰی سَبَبْتُکَ وَذَکَرْ تُ اٰ لِھَتَھُمْ بِخَیْرٍ ۔ ”  یا رسول اللہ، مجھے نہ چھوڑا گیا  جب تک کہ میں نے آپ کو بُرا اور ان کے معبودوں کو اچھا نہ کہہ دیا“۔ حضور نے پوچھا   کَیْفَ تَجِدُ قَلْبَکَ ۔ ”اپنے دل  کا کیا حال پاتے ہو“؟ عرض کیا   مُطْمَئِنًا بِالْاِیْمَانِ۔”ایمان پر پوری طرح مطمئن“۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا  ان عَا دُوْ  ا فَعُدْ۔ ”اگر وہ پھر اس طرح کا ظلم کریں تو تم پھر یہی باتیں کہہ دینا“۔