اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر١۴

یعنی خدا نے ساری زمین بالکل یکساں بنا کر نہیں رکھ دی ہے بلکہ ہر خطے کو مختلف امتیازی علامات(Landmarks ) سے ممتاز کیا۔ اِس کے بہت سے دوسرے فوائد کے ساتھ ایک فائدہ یہ بھی  ہے کہ آدمی اپنے راستےا ور منزل مقصود کو الگ پہچان لیتا ہے۔ اس نعمت کی قدر آدمی کو اسی وقت معلوم ہوتی  ہے جبکہ اسے کبھی ایسے ریگستانی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو جہاں اس طرح کے امتیازی نشانات تقریبًا مفقود ہوتے ہی اور آدمی ہر وقت بھٹک جانے کا خطرہ محسوس کرتا ہے۔ اس  سے بھی بڑھ کر بحری سفر میں آدمی کو اس عظیم الشان نعمت کا احساس ہوتا ہے ،کیونکہ وہاں نشاناتِ راہ بالکل ہی مفقود ہوتے ہیں ۔ لیکن صحراؤں اور سمندروں میں بھی اللہ نے انسان کو رہنمائی کا ایک فطری انتظام کر رکھا ہے اور وہ ہیں تارے جنہیں دیکھ دیکھ کر انسان قدیم ترین زمانے سے آج تک اپنا راستہ معلوم کر رہا ہے۔
یہاں پھر توحیداور رحمت و ربوبیت کی دلیلوں  کے درمیان ایک لطیف اشارہ دلیل ِ رسالت کی طرف کر دیا گیا ہے۔ اس مقام کو پڑھتے ہوئے ذہن خود بخود اس مضمون کی طرف منتقل ہوتا ہے کہ جس خدا نے تمہاری مادّی زندگی میں تمہاری رہنمائی کے لیے یہ کچھ انتظامات کیے ہیں کیا وہ تمہاری اخلاقی زندگی سے اتنا بے پروا ہو سکتا ہے کہ یہاں تمہاری ہدایت کا کچھ بھی انتظام نہ کرے؟ ظاہر ہے کہ مادّی زندگی میں بھٹخ جانے کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اخلاقی زندگی میں بھٹکنے کے نقصان سے بدرجہا  کم ہے۔ پھر جس ربِّ رحیم کو ہماری مادّی فلاح کی اتنی فکر ہے کہ پہاڑوں میں ہمارے لیے راستے بناتا ہے، میدانوں میں نشاناتِ راہ کھڑے کرتا ہے، صحراؤں  اور سمندروں میں ہم کو صحیح سمتِ سفر بتانے کے لیے آسمانوں پر قندیلیں روشن کر تا ہے ، اس سے یہ بدگمانی کیسے کی جا سکتی ہے کہ اس نے ہماری اخلاقی فلا ح کے لیے کوئی راستہ نہ بنایا ہو ا، اس راستے کو نمایاں کر نے کے لیے کوئی نشان نہ کھڑا کیا ہو گا، اور اُسے صاف صاف دکھانے کے لیے کوئی سراج منیر روشن نہ کیا ہوگا؟