اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر١۷

پہلے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک پوری داستان ان کہی چھوڑ دی ہے، اس لیے کہ وہ اس قد ر عیاں ہے اور اس کے بیا ن کے حاجت نہیں۔ اسکی طرف محض یہ لطیف اشارہ ہی کافی ہے کہ اللہ کے بے پایاں احسانات کا ذکر کرنے معاً بعد اس کے  غفور و رحیم ہونے کا ذکر کر دیا جائے۔ اسی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جس انسان کا بال بال اللہ کے احسانات میں بندھا ہوا ہے وہ اپنے محسن کی نعمتوں کا جواب کیسی کیسی نمک حرامیوں، بے وفائیوں، غداریوں اور سر کشیوں سے دے رہاہے، اور پھر اس کا محسن کیسا رحیم اور حلیم ہے کہ ان ساری حرکتوں کے باوجود سالہا سال ایک نمک حرام شخص کو اور صد ہا برس ایک باغی قوم کو اپنی نعمتوں سے نوازتا چلا جاتا ہے۔ یہاں وہ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو علانیہ خالق کی ہستی ہی کے منکر ہیں اور پھر نعمتوں سے مالا مال ہوئے جا رہے ہیں۔ وہ بھی پائے جاتے ہیں جو خالق کی ذات ، صافت، اختیارات، حقوق ، سب میں غیر خالق ہستیوں کو اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں اور منعم کی نعمتوں کا شکریہ غیر منعموں کو ادا کر رہے ہیں، پھر بھی نعمت دینے والا ہاتھ نعمت دینے سے نہیں رُکتا۔ وہ بھی ہیں جو خالق کو خالق اور منعم ماننے کے باوجود اس کے مقابلے میں سر کشی  و نافرمانی ہی کو اپنا شیوہ اور اس کی اطاعت سے آزادی ہی کو اپنا مسلک بنائے رکھتے ہیں، پھر مدت العمر   اس کے بے حد و حساب احسانات کا سلسلہ اُن پر جاری رہتا ہے۔