اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر١۹

یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جا رہی ہے وہ فرشتے ، یا جنّ ، یا شیاطین، یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں، بلکہ اصحابِ قبور ہیں۔ ا س لیے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں، ان پر اَمْواتٌ غَیْرُ اَحْیَآ ءٍ  کے الفاظ کا  اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت علماؤں کا کوئی  سوال نہیں ہے، اس لیے  مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کر دیتے ہیں ۔ اب لا محالہ اس آیت میں اَلَّذِیْنَ  یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین  داتا ، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز، گنج بخش ، اور نامعلوم کیا کیا قرار دے کر  اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔  اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے  جاتے تھے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ جاہلیتِ عرب کی تعریف سے اس کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ کون پڑھا لکھا نہیں جانتا ہے کہ عرب کے متعدد قبائل ، ربیعہ،کلب، تغلِب، قُضَاعَہ، کِنانہ، حَرث، کعب، کِندَہ وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے، اور یہ دونوں مذاہب بُری طرح انبیاء اولیاء اور شہدا ء کی پرستش سے آلودہ تھے۔ پھر مشرکین عرب کے اکثر نہیں تو بہت سے معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا۔ بخاری میں  ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ ودّ، سُواع، یغوث، یعُوق، نسر، یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بُت بنا بیٹھے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ  اِساف اور نائلہ دونوں انسان تھے۔  اسی طرح  کی روایات لات اور مُناۃ  اور عُزّیٰ کے  بارے میں موجود ہیں۔ اور مشرکین کا یہ عقیدہ بھی روایات میں آیا ہے کہ لات اور عزّیٰ  اللہ کے ایسے پیارے تھے کہ اللہ میاں جاڑا لات کے ہاں اور گرمی عزّیٰ کے ہاں  بسر کرتے تھے۔ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعَالیٰ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔